حدیث اور سنت کا فرق۔قسط1

(نوٹ :فیس بک پر حدیث، سنت، کتب احادیث اور ان کی استنادی حیثیت پر گفتگو دیکھ کر سوچا کہ اس موضوع پر اپنا حاصل مطالعہ پیش کیا جائے. شاید پوری بحث کئی اقساط پر چلے. اہل علم سے درخواست ہے کہ اغلاط و أخطاء سے آگاہ کریں تاکہ ساتھ ساتھ تصحیح ہو سکے)

حدیث :ہر وہ بات، عمل اور تصویب جو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب ہو نیز آپ کی ہر بدنی اور اخلاقی صفت کا بیان حدیث ہے خواہ وہ قبل از نبوت سے متعلق ہو یا بعد از نبوت سے.
سنت :ہر وہ متواتر عمل جو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہو اور بعد میں صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے ادوار میں رائج رہا ہو، خواہ لفظاً متواتر نہ ہو. حدیث کی دو قسمیں ہیں
تشریعی!
غیر تشریعی!

تشریعی سے مراد وہ امور ہیں جنہیں رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کی تبیین و تفسیر کے طور پر بیان فرمایا ہو یا سماج میں رائج کر دیا ہو. یا وہ ایسا حکم ہو جس کے بارے میں قرآن خاموش ہو اور آپ نے اسے ایک حکم شرعی کے طور پر رائج کر دیا ہو جیسے موزوں پر مسح کرنا.
سنت کبھی قرآن کا بیان و تشریح ہوتی ہے اور کبھی قرآن کے حکم سے زائد حکم تاہم ہر صورت میں قرآن کو اولین حیثیت حاصل ہوتی ہے. اگر سنت قرآن کا بیان ہو تو اصل حکم قرآن سے ثابت ہوتا ہے تاہم سنت کے ذریعے عام کی تخصيص، مطلق کی تقیید، ظاہر کی تاویل اور استثناء کی تعمیم ہوتی ہے نیز مصطلحات مثلا صلاۃ، زکاۃ، صوم، حج وغیرہ کے مفاہیم کا تعین بھی سنت سے ہوتا ہے. اگر سنت سے ثابت ہونے والا حکم قرآن سے زائد ہو تو ضروری ہے کہ قرآن اس ضمن میں خاموش ہو. بہر طور اولین حیثیت قرآن کو حاصل ہے.

غیر تشریعی روایات سے وہ روایات مراد ہیں جو کوئی حکم شرعی نہیں بتاتیں مثلا جو کام آپ نے بطور عادت کیے یا بشری تقاضے یا سماجی حالات کے تحت کیے مثلاً  آپ کا مخصوص لباس، کھانوں میں پسند نا پسند، جنگی ساز و سامان، سواریاں، کسی کو گورنر، عامل یا قاضی بنانا کسی میدان جنگ کا انتخاب اور اس نوعیت کی ہزار ہا چیزیں ہیں جن کا بیان آپ کو کتب حدیث میں ملے گا، یہ امور احادیث ہیں لیکن سنت نہیں.

سنت کی حفاظت!
رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں تک صرف قران ہی نہیں پہنچایا بلکہ آپ نے ایک زندہ سماج کی تشکیل بھی فرمائی جو اپنی اساس میں قرآنی سماج تھا البتہ اس کے لیے قالب عرب تمدن سےمستعار لیا گیا. آپ نے صرف زبانی تعلیمات ہی نہیں دیں بلکہ ایک ایسی جماعت تیار کر دی جس کی دانش و بصیرت، صداقت و دیانت، حب رسول اور تعلق مع النبی کو ماپنے کے لیے ہنوز تاریخ نے پیمانے وضع نہیں کیے۔آپ نے اور آپ کے بعد آپ کی تیار کردہ قیادت نے پوری انسانی تہذیب کو ان فکری، علمی اور سماجی روایات سے روشناس کروایا جس کی کوئی مثال ما قبل اور مابعد کی تاریخ میں نہیں ملتی.یہ جماعت اس فرق سے بخوبی آگاہ تھی کہ کون سا پہلو تشریعی ہے اور کون سی ادا غیر تشریعی. انہوں نے کبھی تمدن اور تدین کو خلط ملط نہیں ہونے دیا،نتیجتاً انہوں نے بہت جلد ایسے افراد اور ادارے تیار کر دیے جنہوں نے تشریعی روایات یعنی سنن نبوی کو اس طرح کی حفاظت، صیانت، ثبوت اور دلالت فراہم کر دی جس طرح کی کتاب اللہ کو حاصل تھی.اس تناظر میں یہ عین ممکن تھا کہ کوئی حکم الفاظ کے اعتبار سے خبر واحد ہو مگر عملاً  اسے تداول و تواتر کی حیثیت حاصل ہو مثلا تیامن.


چونکہ تشریعی روایات قرآن کی تبیین اور سماج کی تشکیل میں اساسی حیثیت رکھتی تھیں اس لیے کبھی اور کسی دور میں ان سے بے اعتنائی نہیں برتی گئی. خلافت راشدہ میں تشریعی روایات کی جستجو اور ان کے مطابق زندگی کی تشکیل اور اہل علم کی تربیت، عمال، قضاۃ اور معلمین کا تقرر ایک معمول کی بات تھی.یہی وہ روایات ہیں جن میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کبھی کسی دور میں بھی ان میں سے کوئی بات امت کی نگاہوں سے اوجھل ہوئی ہو_یہی وہ روایات ہیں جو ائمہ مجتہد ین کے مکاتب فقہ کی بنیاد ہیں.عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جمع و تدوین حدیث کا مرتب کام تیسری صدی ہجری میں ہوا جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ تشریعی روایات مکمل طور پر چھان پھٹک کر فقہاء صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے پہلے سے نہ صرف محفوظ کر لی تھیں بلکہ ان پر سماج کی بنیاد رکھ دی تھی اور تشریعی روایات کی جمع و تدوین کا کام صحاح ستہ سےتقریبا ڈیڑھ دو صدیاں پہلے ہوچکا تھا.

Advertisements
julia rana solicitors

گاہے ہم دیکھتے ہیں کہ صحاح ستہ کی کسی مستند کتاب کی کسی روایت کی بنیاد پر کسی فقہی مذہب کے ایسے مستدل پر اعتراض کیا جاتا ہے جو ان کتب میں نہیں ہوتا، کہا جاتا ہے کہ آپ کے فقہی مذہب کا مستدل ضعیف روایت ہے. واقعہ یہ ہے کہ اس نوع کا اعتراض کم علمی کا شاخسانہ ہوتا ہے،کیونکہ اولا یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ جس سند کی بنا پر آج ہم ایک حدیث کو ضعیف کہہ رہے ہیں امام مجتہد کے پاس بھی یہی سند تھی، اگر یہی تھی تب بھی اس میں ضعف بعد کے دور میں آیا ہوگا کیونکہ امام مجتہد کو اگر اس حدیث کی صحت میں کوئی شک ہوتا تو وہ اس پر اپنے مذہب کی بنیاد کبھی نہ رکھتے. نیز تیسری اور چوتھی صدی ہجری کی سند کی بنا پر پہلی اور دوسری صدی ہجری میں موجود کسی ایسی حدیث پر اعتراض کرنا جسے امام مجتہد نے دلیل بنایا ہے سراسر کج فہمی ہے کیونکہ متأخر کتب اور اسناد کی بنا پر خیرالقرون کے مستدلات کو بے اعتبار قرار دینے سے سارے دین پر سے اعتبار ختم ہو جاتا ہے.
( جاری ہے)

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply