کھیر، رات کی رانی اور ماں جی کی یاد ۔۔۔عامر عثمان عادل

آج سکول سے واپس گھر آیا ،کچھ کھانے کی تلاش میں فریج کھولا تو بڑے سلیقے سے سجائی  گئی کسٹرڈ کی پلیٹ پر نظر کیا پڑی، دل سے ایک ہوک اٹھی اور جیسے یادوں کے منہ زور دریا کا بند ٹوٹ گیا ہو ،تصور میں لڑکپن کے دن روشن ہو گئے۔۔

ماں جی جنہیں ہم امی اور پورے گاؤں کے چھوٹے بڑے پیار سے خالہ جی کہتے تھے، ہر عید پر ان کا معمول ہوتا کہ وہ عید سے ایک روز قبل پورے اہتمام سے کھیر بناتیں، پھر اس کھیر کو رکابیوں میں انڈیل کر پستے بادام کی قاشیں چھڑکنے کے بعد چاندی کے ورق سے سجاتیں اور رات بھر ٹھنڈا ہونے کو رکھ دیتیں اس زمانے میں ایک فریج تو تھا، ہمارے گھر مگر چھوٹا سا جس میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ دس بارہ رکابیاں سما سکیں ،اس سارے عمل کی تکمیل میں شب بیت جاتی۔

نماز عید پڑھنے کے بعد ہمارا معمول ہوتا دوستوں کے ہمراہ قبرستان جاتے ،بزرگوں کی آخری آرامگاہوں پر حاضری دینے کے اب یلغار ہوتی اور دوست کھیر کی چاہ میں کھنچے چلے آتے ،پھر سارا دن یہی ہوتا ،ہر مہمان کو سجی سجائی  پلیٹ پیش کی جاتی اور ہم دل ہی دل میں کڑھتے رہ جاتے کہ اتنے مزے کی کھیر ختم ہو جائے گی۔

پھر یوں ہوا کہ کچھ دوست تلاش رزق میں سات سمندر پار جا بسے ،لیکن ہر عید پر ان کا خط آتا یا ٹیلی فون تو وہ بتاتے کہ یہاں پردیس میں ہم شدت سے خالہ جی کے ہاتھ کی کھیر کو بہت یاد کرتے ہیں اور ان کا اعتراف ہوتا کہ زندگی میں ہم نے ایسی کھیر نہیں کھائی۔

وہ خوشبو وہ ذائقہ آج بھی منہ میں گھلتا ہے، مجھے یاد ہے ہم رکابیوں کے کنارے تک کھرچ کھرچ کے چاٹ جاتے ،آنکھیں تھیں کہ سیراب ہو کے نہیں دیتی تھیں۔
کھیر نہیں یہ تو ایک روایت تھی سچے جذبوں بے لوث رشتوں اور ممتا بھری حدت کی، جس کا نعم البدل سارے زمانے میں کوئی  نہیں، امی کا بس ایک ہی شوق تھا بچوں کے دوست آتے رہیں ،دستر خوان آباد رہے اور وہ اپنے ہاتھوں سے نت نئے پکوان پکا پکا  کر مہمان نوازی کرتی رہیں۔ دست قدرت نے ذائقہ بھی تو بلا کا بھر دیا تھا امی کے ہاتھ میں ،وہ تو کوئی  عام سی شے بھی پکاتیں تو ہم انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ،کبھی بیمار پڑنے پہ آملے سونف کا شوربہ بنتا جسے لاون یا بڑا سالن کہتے تو وہ بھی اس قدر لذیذ ہوتا کہ ہاتھ نہ رکتا اور چائے کی تو کچھ نہ پوچھے، مکس ہو یا سیپریٹ واللہ کیا جادو ہوتا اس چائے میں ،پہلا گھونٹ بھرتے ہی سرشاری اور ترنگ جسم میں بھر جاتی ۔ابا کے دوست اور بالخصوص بیرون ملک سے آئے ہوئے لوگ خاص طور پر فرمائش کر کے چائے بنواتے۔

اب تو کسی کے گھر رات قیام کرنے کا رواج ہی نہیں رہا تب مہمان آتے تو صبح ناشتے میں رات کے سالن کے ساتھ خاص طور پر بنائے گئے چوکور پراٹھے اس قدر خستہ اور مزیدار ہوتے کہ گنتی مشکل ہو جاتی کہ کتنے پراٹھے کھائے گئے ہیں، امی کے ہاتھوں بنا اچار اس ناشتے کا مزا دوبالا کر دیتا ،محلے دار خواتین جب بھی آتیں اچار ضرور مانگ کے لے جاتیں۔

تمام رشتے دار امی سے نالاں تھے کہ آپ نے اپنے بچوں کی عادتیں خراب کر رکھی ہیں انہیں کسی اور کے ہاتھوں بنی شے پسند ہی نہیں آتی۔
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی
وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی

Advertisements
julia rana solicitors

امی کیا بچھڑیں لگتا ہے ذائقے بھی ہم سے روٹھ گئے۔۔آج فریج کھولا، اسی انداز میں سجائی  گئی رکابی پر نظر پڑی تو ایک تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا ،اور جب پہلا  چمچ منہ میں ڈالا  تو بالکل وہی ذائقہ وہی مہک، پھر ہاتھ نہ رُکے، بس اس وقت سے اب تک لگتا ہے امی کہیں میرے آس پاس ہیں رات کی رانی کی طرح میرے احساس کا آنگن مہک رہا ہے۔۔۔شکریہ بیگم!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply