قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، مٹھی مٹھی پہاڑ بنتا ہے۔ کوئی بھی ادارہ کامیابی کے زینے پر تبھی رواں دواں ہوتا ہے اور ترقی کی منازل کو طے کرتا ہے جب اس سے منسلک افراد نہ صرف اس سے مخلص ہوتے ہیں بلکہ مستقل مزاجی سے اپنا حصّہ ڈالتے رہتے ہیں۔
یہ مستقل مزاجی اور اخلاص ہی ہے جو اداروں کو اُس رفعت پر لے جاتا ہے جس کا تصور بھی کبھی شجر ممنوعہ سمجھا جاتا هو۔ کچھ کر جانے والے حالات کا گلہ نہیں کرتے وہ اپنے حصّے کا چراغ ضرور روشن کرتے ہیں۔اور ایسا ہی ہمارے شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی کے صدر محترم جناب ڈاکٹر عارف خان ساقی صاحب نے مسند نشین ہوتے ہی کیا، آپ نے حالات کا گلہ نہیں کیا، اپنے گھر سے بڑھ کر آپ نے اپنے مادرِ علمی کو سمجھا اور ایک ایسی ٹیم کا انتخاب کیا جو واقعی اس شعبہ کا درد رکھنے والے تھے جنہوں نے ہر کام کو خوبصورتی سے انجام دیا۔
چاہے وہ شعبہ کی صفائی کے لئے پانی کی ٹنکی کی صفائی ہو ،، کمروں کی تزین و آرائش هو شعبہ کے زیر اہتمام ریسرچ جرنل “استدراک ” کا اجرا هو شجر کاری مہم ہو یا مختلف موضوعات پر ملک بھر کے اہم اسکالرز کو بلا کر بہترین پروگرامات کا انعقاد ہو۔ ہر کام کو بہترین انداز سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ جس کی بدولت آج ہم اِس شعبہ کو اس ترقی پر دیکھ رہے ہیں اور انشاءاللہ جو بیج صدر شعبہ نے بویا ہے وہ جب تناور درخت بن کر لوگوں کے سامنے آئے گا تو صدر شعبہ کے ناقد بھی ان کی زیرک و دانائی کی گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ایک لیڈر کی یہی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے کہ وہ صرف خود ادارے کا خادم نہیں بنتا بلکہ ایک ایسی ٹیم کا انتخاب بھی کرتا ہے جو اس ادارے سے مخلص اور محنتی بھی هو کیوں کہ کام کرنا مشکل نہیں ہوتا بلکہ کام لینا مشکل ہوتا ہے جب درست انتخاب هو اور ہر کوئی مخلص پن سے آگے بڑھ رہا هو تو پہاڑ جیسے پربت ٹیلے بھی روئی کے گال بن جاتے ہیں لیکن اگر ادارے سے منسلک افراد کے درمیان اتحاد و محبّت کا فقدان هو تو روئی کے گال پہاڑ بھی بن جاتے ہیں

آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ مادر علمی کو اپنے گھر سے بڑھ کر سمجھنا ایک نظریہ ہے اور صحیح معنوں میں ہمیں کامیابی تب نصیب ہوگی جب ہم اس نظریے کو اس شعبے کے ہر طالب علم کے دل و دماغ میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اللہ پاک ہمیں اس مادر علمی کی خدمت کرنے اور آنے والی نسل کے لیے بہترین ماحول فراہم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں