سعودیہ ائیر لائن کی ائیر ہوسٹس مصری تھی ۔آتے ہی میرے سر پہ کھڑی ہوگئی ۔مجھے اس کا چہرہ دکھائی نہیں دیا ۔
“پانی یا چائے ”
“چائے”
“دودھ والی یا بغیر دودھ “؟
میں نے پھر اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی ۔۔اور کہا”دودھ والی ”
“ایک یا، دو”؟
اب وہ تھوڑا پیچھے ہٹی تو چہرہ دکھائی دیا ۔
“دو ہی ٹھیک ہیں ”
اس نے مسکرا کر دو ساشے خشک دودھ کے پکڑائے اور آگے نکل گئی ۔
میں نے ساشے والا دودھ پہلی بار دیکھا تھا ۔
ریاض ائیرپورٹ کی اناؤنسمنٹ ہوتے ہی ایک عجیب منظر دیکھا ۔خواتین سیٹوں سے اٹھ کھڑی ہوئیں ۔
حجاز مقدس سے عقیدت کا یہ منظر روح میں اتر گیا ۔۔
میں بھی اٹھ کھڑا ہوا ،ساتھ والی سیٹ کے مشٹنڈے نے مجھے بازو سے پکڑ کر بٹھا دیا ۔
“انہوں نے عبایہ پہننے ہیں”
میں شرمندہ نہیں ہوا ۔۔
کیونکہ میں عبایہ نہیں پہنتا،
ریاض ائیرپورٹ خوبصورت تھا مگر سارا حسن پیک تھا ۔۔
اب اگلی منزل طائف تھی ۔
بورڈنگ اناؤنس ہوئی ۔کاؤنٹر پہ دو سعودی دوپٹے اوڑھے چائے جیسا کچھ پی رہے تھے ۔
میں نے ٹکٹ آگے کی ۔۔اس نے عربی میں کچھ کہا ۔
میں نے آمین کہا،اور بتایا کہ بورڈنگ کے سلسلے میں حاضر ہوا ہوں ۔دادا حضور کا ختم مبارک تین مہینے بعد ہے ۔
دوسرے نے مجھے گھورا اور انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے انگلش میں کہا “کیو “میں جاؤ ۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سو سوا سو ۔پاکستانی، انڈین فلپینی اور بنگلہ دیشی زمین پہ دھرنا دیے بیٹھے تھے ۔
میں مُڑا اور، سعودی سے کہا ۔
یہ “کیو “نہیں ہے ۔یہ تو Q ہے ۔
ساتھ میں انگلی سے کاؤنٹر پہ Q لکھ کر بھی دکھایا۔
وہ ہنس دیا ۔اور میری ٹکٹ پکڑ لی ۔
مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ آخری سعودی ہے جسے میں ہنستا ہوا دیکھ رہا ہوں

(محبت کھرک ھے سے اقتباس)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں