تو کیا امیر العساکر سے تاجروں کی ملاقات کے بعد معاشی حالات بہتر ہوجائیں گے؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ دیکھ لیں کہ کون کون اس ملاقات میں موجود تھا؟ جی ہاں یہ سب لوگ بڑے کاروباری اور کارپوریٹ کے لوگ تھے جبکہ پاکستان میں سرمایہ کاری اس لئے کم نہیں ہوئی کہ کاروبار کرنے میں دشواری ہے یا یہ لوگ نئی صنعتیں لگانے یا مزید پیسے کمانے میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ اس لئے کم ہوِئی ہے کہ صارفیت کم ہوئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس ملاقات سے صارفیت بڑھے گی؟ تو اس کا جواب بھی واضح ہے کہ نہیں بڑھے گی کیونکہ لوگوں کی آمدن کم ہوئی ہے اور ان کے لئے روز مرہ کی اشیاء مہنگی ہوئی ہیں تو کیا کوئی چائے کی پتی یا چینی چھوڑ کر ملک ریاض کا پلاٹ خریدے گا، لکی سیمینٹ والوں کا سیمنٹ پکانا شروع کردے گا یا میاں منشا کے بینک میں پیسے رکھوائے گا؟ کیا چھوٹا سرمایہ کار اس خوف سے نکل آئے گا کہ ایف بی آر اندھا دھند پکڑ دھکڑ کرے گی اور یوں سونے کے بسکٹ کو پاکستانی روپے میں تبدیل کروا کے اس سے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرے گا؟
ہر آنے والے دن کے ساتھ متوسط طبقے کی قوت خرید اور کم ہونے والی ہے۔ ابھی کل ہی سرکار نے اسی ارب روپے بجلی کے بلوں کی مد میں عوام کی جیبوں سے نکلوانے کا فیصلہ صادر کیا ہے۔ یقینی طور پر اپنے اہداف سے کوسوں دور ہونے والی ٹیکس وصولی کا غصہ بھی کسی پر تو نکلے گا۔ آئی ایم ایف یہ تو پوچھے گی کہ یہ کمی کہاں سے پوری کرنی ہے؟
اور جواب تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہ کمی عوام سے ہی پوری ہوگی۔
لہذا عوام اے درخواست ہے کہ اپنی سیٹ بیلٹ کس لیں کیونکہ ابھی ہواوُں کی بھنور میں ہی رہنا ہوگا اور دائروں کا یہ سفر جاری و ساری رہے گا۔
بقول امجد اسلام امجد کے

ہم لوگ
دائروں میں چلتے ہیں
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں گھٹتے
آرزوئیں چلتی ہیں
جس طرف کو جاتے ہیں
منزلیں تمنا کی
ساتھ ساتھ چلتی ہیں
گرد اڑتی رہتی ہے
درد بڑھتا رہتا ہے
راستے نہیں گھٹتے
صبح دم ستاروں کی تیز جھلملاہٹ کو
روشنی کی آمد کا پیش باب کہتے ہیں
اک کرن جو ملتی ہے آفتاب کہتےہیں
دائرہ بدلنے کو انقلاب کہتے ہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں