معاشرہ ،طرز ِزندگی پر مکمل طور پر اثر انداز ہوتا ہے، انسان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے، ہم بحیثیت انسان ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں، ہماری ضروریات ایک دوسرے پر منحصر ہیں، اور ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہمارے طرزِ عمل سے کسی دوسرے پر کوئی اثر ہی نہ ہوتا ہو، انسانوں کا انفرادی طرز عمل پورے معاشرے پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔
انسان اپنی روزی روٹی کمانے کی غرض سے کسی نہ کسی شعبے، کاروبار یا روزگار سے وابستہ ہو جاتا ہے جس کی بدولت وہ اپنی زندگی کی ضروریات پوری کر رہا ہوتا ہے، ہر شعبے کی اپنی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے، جیسے تعلیم، وکالت، انجینئرنگ، میڈیکل یا پولیس ہے ہر ایک شعبہ اپنی جگہ اہم ہے، اور ہر شعبے میں اچھے بُرے تمام طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ویسے تو تمام شعبہ ہائے زندگی کے معاملات توجہ طلب ہیں اور تمام ہی شعبوں کو جدید دور کے تقاضوں سے آراستہ کرنا بہت ضروری ہے، لیکن پاکستان میں ارباب اختیار کی جانب سے محکمہ پولیس پر توجہ کی شدید ترین ضرورت ہے، پچھلے چند برسوں میں تو بہت سے ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ جن کی وجہ سے اس محکمے پر سے عوام الناس کا نا صرف اعتماد اٹھ رہا ہے بلکہ عام آدمی تو ان سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراتا ہے، پولیس کے محکمے پر بات تو بہت کی جاتی ہے لیکن اصلاحات کے نام پر آج تک کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، پاکستان میں محکمہ پولیس کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ بد ترین سیاسی مداخلت ہے۔
تھانہ کلچر کو بدلنے کا نعرہ ہر سیاسی جماعت نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے لگایا، مگر سب سے زیادہ نقصان اس محکمے کو سیاسی بنیاد پر پوسٹنگ اور تبادلوں نے پہنچایا ہے، اور پولیس محکمے کا یہ مسئلہ ایک صوبے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات پورے ملک تک پھیلے ہوئے ہیں، جب کہ دوسری جانب موٹر وے پولیس پاکستان میں بہترین محکمہ کی ایک اعلیٰ ترین مثال ہے،کیونکہ موٹر وے پولیس کا نظام بہترین خطوط پر استوار ہے، انکے دفاتر شاندار ہیں اور ان کے لیے بہترین تربیت کے مواقع موجود ہیں۔
اب ایک نظر پنجاب پولیس پر بھی ڈال لی جائے، آج بھی بہت سے ایسے تھانے اور چوکیاں موجود ہیں جو انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں موجود ہیں، پنجاب پولیس میں محکمہ جاتی تربیت کے علاوہ کسی بھی قسم کی رویوں میں مثبت تبدیلی کے حوالے سے تربیت کا نام و نشان ہی نہیں ہے، تو پھر محکمے کے اہلکاروں کے رویے میں مثبت تبدیلی کیسے رونما ہوگی، سیاسی و منتخب نمائندوں، افسران اور مذہبی راہنماؤں کی سکیورٹی و پروٹوکول ڈیوٹی مشکل ترین کام ہے اس دیوٹی پر معمور اہلکاروں کا تو کوئی پُرسان ِ حال ہی نہیں ہوتا ہے ، پنجاب پولیس کو دی جانے والی وردی ترپال کے کپڑے جتنی سخت اور انتہائی گرم ہوتی ہے جس کو پہن کر جنوبی پنجاب کی گرم مرطوب آب و ہوا میں ڈیوٹی دینا کسی بد ترین امتحان سے کم نہیں ہوتا ،اہلکار نے تو پہن کر دھوپ میں ہی ڈیوٹی دینی ہوتی ہے ، پاکستان کے تمام حکومتی محکموں سے وابستہ افراد کو 8 سے 9 گھنٹے روزانہ ڈیوٹی سر انجام دینی پڑتی ہے جب پولیس اہلکاروں کی 24 گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے، اور اگر ایمرجنسی کے دن ہوں تو رخصت تو خواب و خیال ہی ہوتی ہے، سب سے بڑھ کر سست رو محکمانہ ترقی بھی ایک سوالیہ نشان ہے، جب سے براہ راست افسران کی بھرتی کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس سے پہلے سے موجود ترقی کے منتظر اہلکاران کے لیے مواقع معدوم ہوتے جا رہے ہیں، پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کہا جانے لگا ہے کہ جو کانسٹیبل بھرتی ہوتا ہے وہ کانسٹیبل ہی ریٹائر ہوگا، ایسے حالات میں اس محکمے سے بہترین کارکردگی اعلیٰ اخلاق و اقدار کے مظاہرے کی توقعات وابستہ کرنا کہاں کا انصاف ہے۔
حکومت کو اس اہم ترین محکمے کی کارکردگی اور میعار کو بہتر بنانے کے لیے، سب سے پہلے تھانوں کی حالت زار کو بہتر بنایا جانا چاہیے ، بلکہ تمام تھانوں کو ماڈل پولیس سٹیشنز میں تبدیل کیا جانا چاہیے جن کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جانا چاہیے ، ہر تھانے میں صاف ستھرے میس کا نظام قائم کیا جانا چاہیے ، اس محکمے کے بہترین مفاد میں 24 گھنٹوں پر مشتمل 3 شفٹوں کی ڈیوٹی کا نظام متعارف کروانا چاہیے، محکمہ پولیس کو ایک اچھی ،باوقار اور موسمی حالات سے مطابقت رکھنے والی وردی متعارف کروا کر فوری طور پر اس کا اطلاق کرنا چاہیے، اس وقت عوام اور پولیس کے مابین رابطوں کا فقدان بہت سے مسائل کو جنم دے رہا ہے، اس کے لیے پولیس محکمے کے اعلیٰ افسران کو چاہیے کہ پولیس اور عوام کے رابطوں کو بہتر بنانے کی غرض سے مخیّر افراد اور بڑی کمپنیوں کے تعاون سے پولیس پبلک سپورٹس فیسٹیول کا انعقاد کروائیں۔،

پولیس محکمے پر مؤثر اعتماد سازی کے فروغ کی بابت اوپن ڈور پالیسی پر من و عن عملدرآمد کیا جائے، چھوٹے عملے اور اہلکاروں کے بچوں کے لیے خصوصی طور پر ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ و پیشہ ورانہ مکمل فری ایجوکیشن کا اہتمام وقت کی اشد ضرورت ہے، وقت کے ساتھ ساتھ بہتری فطری عمل ہے ،لیکن بات اگر اداروں کے مؤثر کام کرنے کی ہو تو وہاں پر ذمہ داری ارباب اختیار اور پالیسی سازوں پر عائد ہوتی ہے، اگر پولیس ڈیپارٹمنٹ سے بہترین کارکردگی اور نتائج مقصود ہیں تو اس کے لیے جنگی بنیادوں پر اصلاحات کا نفاذ ناگزیر ہے۔۔
Facebook Comments
You are one of the best writer i ever met , i am too much interested in Reading your articles. This article is also outstanding like previous? Thank you for your services?
Dua h apki kawish hmari govt tk phuch jay amen
sir bht zabrdast topics py ap likhty hyn I appreciate ur Work….Allah apko Hameshn salamt rakhy