میرا سفر- فیسبک سے مکالمہ تک

مکالمہ کی پہلی سالگرہ پر میری طرف سے جناب انعام رانا اور رضوان صاحب سمیت پوری مکالمہ ٹیم کو بہت بہت مبارک باد اور دل سے یہ دعا ہے کہ مکالمہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔سب سے پہلے تو میں بہت معذرت خواہ ہوں کہ یکم ستمبر پر بوجہ علالت کچھ تحریر نہیں کرسکا اور اسکا مجھے شدید قلق ہے۔لیکن اب مکمل صحت یاب ہوکر دل میں یہ چنگاری سلگی کہ اب تو کچھ نہ کچھ اپنے تاثرات اور جذبات صفحہ قرطاس پر اتار لوں کہ دیر ہی ہوئی ہے کوئی بہت زیادہ دیر تو نہیں ہوئی۔بہرحال میں یہاں تعریفوں اور خوشامد کے قلابے زمین و آسمان سے نہیں ملاؤں گا بلکہ جو بھی کہوں گا سچ کہوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا۔

یہ سچ ہے کہ میں نے لکھنے لکھانے اور لوگوں کا لہو گرمانے کا باقاعدہ آغاز اسی سال جنوری کے آخر میں فیسبک کے ذریعے کیا۔آغاز ،میں نے اپنے فیسبک بلاگ “آزادیات” کے نام سے کیا۔اور الحمداللہ آغاز سے لوگوں نے میری کوششوں کو سراہا اور آہستہ آہستہ مزید لکھنے والوں اور لکھاریوں کے سوشل میڈیا گروپس سے متعارف بھی کروایا ۔اسی طرح کے ایک تعارفی مکالمے میں مجھے میرے ایک فیسبک دوست نے مکالمہ ڈاٹ کام اور اسکے فیسبک کمیونٹی گروپ سے متعارف کروایا۔مجھے آغاز میں طریقہ کار معلوم نہ تھا کہ مکالمہ پر اپنی تحاریر کیسے شائع کروا سکتا ہوں۔ لہٰذا میں جو بھی ٹوٹی پھوٹی تحریر لکھتا وہ براہ راست مکالمہ کے فیسبک گروپ میں پوسٹ کردیتا۔جس میں سے اکثر تحاریر اپرووڈ ہوکر گروپ میں پبلک ہوجاتیں۔

یہ سلسلہ کوئی دو ہفتے تک چلا ،پھر ایک دن مجھے رضوان احمد صاحب کا انبکس میسج موصول ہوا کہ آپ اچھا لکھ لیتے ہیں اگر آپ مکالمہ ڈاٹ کام پر اکاؤنٹ بناکر یہ سب وہاں اپلوڈ کریں تو بہت بہتر ہوگا ایسے آپ کو مزید لکھنے میں مدد اور حوصلہ ملے گا اور آپ کا لکھنے کا انداز مزید بہتر ہوگا۔مجھے یہ تجویز بہت بھلی معلوم ہوئی اور اسی روز میں نے مکالمہ ویب پر اپنا اکاؤنٹ رجسٹرڈ کیا اور اسی دن ایک تحریر بھی اپلوڈ کردی جو دوسرے دن معمولی ترمیم اور کانٹ چھانٹ کے بعد شائع ہوگئی۔اور بس مجھے حوصلہ ہوا کہ اب میں بھی رجسٹرڈ لکھاریوں کی نئی کھیپ میں باقاعدہ طور پر شامل ہوگیا ہوں۔تب سے اب تک میری بیسیوں تحاریر مکالمہ پر شائع ہوچکی ہیں اور اس تمام عرصہ میں میرے قلم اور علم میں کافی بہتری اور بلوغت آگئی ہے۔

مکالمہ میں میری انٹری کیسے ہوئی یہ تو کہانی اوپر میں بیان کرچکا  ہوں،پر میرے عمومی اور ذاتی خیالات و تاثرات مکالمہ کے حوالے سے کیا ہیں وہ میں بیان کیئے بغیر اپنی تحریر کو اختتام پذیر نہیں کرسکتا۔کوئی مجھ سے پوچھے کہ مکالمہ ڈاٹ کام کیا ہے اور کیسی ہے؟تو میں کہوں گا کہ۔۔”کیا ہے؟ کا جواب یہ ہے کہ مکالمہ ڈاٹ کام نئے کالم نویسوں اور لکھاریوں کے لیئے بالکل  بچوں کی اس واکر کی طرح ہے جو ہر شِیر خوار بچے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور ساتھ ساتھ مزید قدم اٹھانے اور بعد میں اس کے بغیر چلنے اور دوڑنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔اور کیسی ہے؟ کا جواب یہ ہے کہ مکالمہ ڈاٹ کام بالکل اس  نئی نویلی محبوبہ جیسی ہے جو آپ کو کچھ بنتا دیکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ بعد میں پھر آپ کی بن سکے ہمیشہ کے لیئے۔”

بالکل میرے تاثرات من وعن یہی ہیں جو میں نے اوپر بیان کیئے ہیں۔مکالمہ اور بالخصوص سر انعام رانا اور رضوان احمد صاحب کو میں اپنے صحافتی سفر میں روحانی اساتذہ کا درجہ دیتا ہوں اور ان کی بدولت جو پختگی اور شہرت مجھےا ﷲ نےعنایت کی ہے اس پر شکر گزار ہوں۔مکالمہ کو واکر سے تشبیہہ دینے کی ایک خاص وجہ میری خود کی ذات بھی ہے کہ میرا صحافتی سفر مکالمہ نے شروع کرنے میں جو مدد کی اسکی بدولت اب میں دیگر مشہور بلاگنگ اور نیوز سائیٹس اور چند ایک اخبارات میں بھی متعارف ہوچکا ہوں اور اب باقاعدگی سے لکھتا ہوں۔اور اگر فیسبک پر شہرت کی بات کروں تو مکالمہ کا حصہ بننے سے پہلے مجھے چند ایک لوگ ہی جانتے اور پڑھتے تھے لیکن مکالمہ کا حصہ بننے کے بعد اب مجھے خود معلوم نہیں کہ کون کون لوگ مجھے جانتے ہیں ۔مکالمہ کی بدولت اور مکالمہ کی ہم جیسے نو خیز صحافیوں سے محبت اور قدرو منزلت کا بے حد شکر گزار ہوں۔اﷲ مکالمہ ڈاٹ کام, اسکی ادارتی ٹیم اور لکھنے والوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور سب کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی سے فیضیاب کرے۔

julia rana solicitors

آخر میں بس یہی کہوں گا کہ شکریہ مکالمہ۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply