نوآبادیاتی عہد کا کُلی جائزہ
ہندی سینما نے اوائل میں ہندو مائتھالوجی کو اپنا نظریاتی ہتھیار بنایاـ مائتھالوجی کا مقصد مغربی ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنا تھاـ گوکہ اس میں ہندوستانی نیشنلزم کی آمیزش بھی تھی لیکن ہندو مسلم مناقشہ یا مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا شائبہ نہیں ملتا اس کے برخلاف جب مغلیہ تہذیب کے ژانر کی ابتدا ہوئی تو وہاں بھی مغلیہ تہذیب کو ہندوستانیت اور عدل و انصاف کا نمائندہ بنا کر پیش کیا گیاـ جیسے اردشیر ایرانی کی “انارکلی” ، سھراب مودی کی “پکار” یا محبوب خان کی “ہمایوں”۔ اسی طرح سماجی فلموں میں بھی ہندو مسلم اتحاد کی تبلیغ اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے خلاف سماجی تعصب پر تنقید کی گئی۔ نظریاتی لحاظ سے نوآبادیاتی عہد کا ہندی سینما نوآبادیاتی جاگیرداریت کے دائرے میں مقید ہے۔ فلم سازوں کی اکثریت ہندوستانی جاگیرداریت کو سرمایہ دارانہ نوآبادیاتی نظام کے مقابلے میں اپنا مورچہ گردانتے تھے اس لیے مارکسسٹ فلم سازوں نے بھی سرمایہ داریت پر مارکسی تنقید کے دوران ہندوستانی سماج کی بنیادی اساس کو نظر انداز کیے رکھا۔ جیسے “نیچا نگر”، “نیا سنسار”، “روٹی” اور “دھرتی کے لعل” وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نوآبادیاتی نظام کے مختلف پہلوؤں کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا لیکن ہندوستانی فیوڈل ازم اور ہندوستان پر شمالی حملہ آوروں کے حملوں و سماج پر ان کے نتائج کا تاریخی مادیت کے اصولوں کے تحت تجزیہ کرنے سے گریز کا رویہ اپنایا گیا ـ گریز کی ایک اہم وجہ ہندو مسلم تقسیم میں فریق بننے سے بچنا بھی ہوسکتا ہے جو سماج میں بڑی شدت کے ساتھ سر ابھار رہی تھی۔
فیمنزم
سماج کا تانیثی زاویہ نگاہ اس عہد کے ہندی سینما میں مضبوط صورت میں نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برخلاف عورت کو ایک کمزور فریق کی صورت پیش کرکے یہ سوال اٹھایا گیا کہ مرد اس کے لیے کیا کرسکتا ہے۔ ہندوستان کی پہلی خاتون ہدایت کارہ بیگم فاطمہ سلطانہ جنہوں نے 1926 کو “بلبلِ پرستان” بنائی، کے فلمیں آج دستیاب نہیں ہیں اس لیے ان کی نظریاتی پیشکش کا احوال نہیں ملتا۔ اگر ان کی فلمیں مل جائیں تو شاید صورتحال زیادہ واضح ہو۔ جو تصویر فی الوقت سامنے ہے اس کے مطابق نوآبادیاتی عہد کا فیمینزم فیوڈل سماج کے سامنے ایک حد سے آگے بڑھ کر بغاوت نہیں کرتا ـ فیوڈل ازم قوم پرستی کی بنیادوں میں شامل تھی۔ اس حوالے سے ایک مثال عذرا میر کی دی جاسکتی ہے جنہوں نے عریانیت کو مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت دکھایا اور ان پر اس قدر نکتہ چینی کی گئی کہ انہوں نے دلبرداشتہ ہوکر سینما سے ہی علیحدگی اختیار کرلی۔ اس کی اہم ترین وجہ ہندو مائتھالوجی کے سینما پر بڑھتے ہوئے اثرات تھے اس کے باوجود بعض فلم سازوں نے عورت کو “دوسرا” سمجھنے کے سماجی عقیدے کو چیلنج کرنے کی جرأت مند کوششیں کیں۔ اس حوالے سے اہم ترین نام تو وی شانتا رام کی “امر جیوتی” ہے جس میں تانیثیت کی بھرپور نمائندگی کی گئی لیکن میرے نزدیک اس عہد میں عورت کی زبردست اور پراثر نمائندگی کا شرف اداکارہ نادیہ کو حاصل ہے۔ نادیہ نے ہر وہ کام کیا جس پر صرف مردوں کا اجارہ سمجھا جاتا ہے۔
“ہنٹر والی” کے نام سے معروف نادیہ اپنی فلموں “ڈائمنڈ کوئن”، “مس فرنٹیئر میل”، “ہنٹر والی”، “ہنٹر والی کی بیٹی” اور “جنگل پرنسس” وغیرہ میں مردوں کی پٹائی کرتی ہے، ریل سے چھلانگ لگاتی ہے، شیروں سے کھیلتی ہے اور مرد کو اٹھا کر پھینکتی ہے۔ ان کا فلمی حلیہ بھی نازک اندام ساڑھی پوش عورت کی بجائے پینٹ شرٹ میں ملبوس لانگ بوٹ پہنی لڑکی کا ہوتا تھا جو ہاتھ میں ہنٹر لیے بدی کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ ایک ایسے دور میں جب سٹنٹ یا ویژول ایفکٹ کا کوئی تصور نہیں تھا یہ سب کام نادیہ خود کرتی تھی۔ آج خطرناک سینز فلمانے کے لیے پیشہ ور فائٹرز کی مدد لی جاتی ہے یا سبز پردے کا استعمال کیا جاتا ہے مگر نادیہ وہ خاتون تھیں جنہیں چلتی ٹرین سے چھلانگ لگانے یا کسی مرد کو اٹھا کر پھینکنے کے لیے کسی ڈبل رول یا ویژول کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ نوآبادیاتی عہد میں حقیقی تانیثیت کی نمائندہ یقینی طور پر نادیہ ہیں۔
نادیہ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے اس عہد میں نظریاتی لحاظ سے عورت کے زاویہ نگاہ کو زیادہ توجہ کے مستحق نہیں سمجھا گیا ـ بیشتر فلم سازوں نے معروض کی تشریح کے لیے مردانہ آنکھ کو ہی استعمال کیا ـ عشق و محبت کی کہانیوں میں بھی عورت کو آزادانہ فیصلے کا حق تفویض کرنے کی بجائے فیوڈل اقدار و روایات کے تحت اسے والدین کی ذاتی ملکیت کے طور پر پیش کیا گیا ـ
حب الوطنی
ہندی سینما کی حب الوطنی کا آغاز گاندھی کی تحریکوں سے ہوتا ہے اس لیے تحریک آزادی اور حب الوطنی ایک دوسرے میں مدغم بھی نظر آتے ہیں اور گاندھی ازم سے متاثر بھی دکھتے ہیں۔ جیسے “اودے کال”، “رام رحیم”، “دی بم” وغیرہ ان میں سے خاص طور پر “اودے کال” کا ایک کردار گاندھی سے مماثلت رکھتا ہے ـ گاندھی ازم اور بورژوا قوم پرستی کے باعث طبقاتی و مذہبی تضادات کو پسِ پردہ رکھنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس عہد کے معروضی حالات شاید اس طرزِ فکر کے موافق ہوں لیکن اس سے فلم بینوں بالخصوص شمالی ہندوستان کے متوسط طبقے کے سامنے تصویر واضح نہیں ہوپاتی اور وہ صرف نعرے بازی تک محدود رہ جاتے ہیں۔
بورژوا قوم پرستی پر نظریاتی تنقید اپنی جگہ یہ امر بہرکیف قابلِ تعریف ہے کہ سخت سنسر کے پہرے میں فلم سازوں نے علامتوں، استعاروں اور گیتوں کی صورت تحریکِ آزادی کو کندھا فراہم کیا۔ “قسمت” فلم میں کوی پردیپ کا گیت اس کا بہترین حوالہ ہے:
آج ہمالے کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے
دور ہٹو اے دنیا والو ہندوستان ہمارا ہے
لسانی تقسیم
نوآبادیاتی عہد میں ہندوستان کی دیگر زبانوں میں بھی سینما کا آغاز ہوا۔ اس تقسیم نے دیگر زبانوں اور ان سے منسلک معاشروں کو بھی سینمائی عہد میں داخل کردیا۔ اگر اس کا کچھ احوال بیان کردیا جائے تو بہتر ہوگا۔
تامل سینما (کولی ووڈ) کا آغاز 1918 کو ہوا۔
بنگالی سینما (ٹولی ووڈ) نے 1919 کو اپنی شروعات کی۔ ملیالم سینما (مولی ووڈ) نے 1920 کو اپنی پہلی فلم سے سینما کی دنیا میں قدم رکھا۔ تیلگو سینما (ٹالی ووڈ) نے 1921 کو یہ سنگِ میل عبور کیا۔ گجراتی سینما 1932, کنڑ سینما (صندل ووڈ) 1934 کو اور آسام 1935 کو سامنے آئے۔ 1936 کو پنجابی (پولی ووڈ) اور اڑیہ سینما (وولی ووڈ) نے پر پھیلائے۔ سندھی سینما نے 1940 کو اپنے وجود کا احساس دلایا۔
مختلف زبانوں و خطوں میں سینما کے ظہور نے ہندی سینما کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان خطوں سے ابھرنے والے موضوعات ، موسیقی اور باصلاحیت افراد نے ہندی سینما کو مزید مضبوط بنایا ـ
حرفِ آخر
ہندی سینما کے نوآبادیاتی عہد کا جائزہ یہاں اختتام پزیر ہوا۔ 1947 کو انگریزوں نے ہندوستان کو اس بھونڈے طریقے سے تقسیم کیا کہ لاکھوں جانیں چلی گئیں، لاکھوں انسانوں کو ہجرت کے عذاب سے گزرنا پڑا، برصغیر نفرت کی ایک ایسی اندھی کھائی میں جاگرا جہاں سے نکلنے کا راستہ تاحال سجھائی نہیں دے رہا۔ اگلے صفحات میں دیکھیں گے تاریخ کے اس سیاہ ترین دور کو دیکھنے کے بعد ہندی سینما نے کونسی سمت اختیار کی۔ اگلے دور کو پنڈت نہرو کی سیاسی پالیسیوں کے باعث نہرو عہد کا نام دیا گیا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں