• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اب جسٹس وجیہ اور جماعت اسلامی کشمیر کاز پہ ایک پیج پہ ہیں۔۔۔سید عارف مصطفٰی

اب جسٹس وجیہ اور جماعت اسلامی کشمیر کاز پہ ایک پیج پہ ہیں۔۔۔سید عارف مصطفٰی

الحمد للہ ایک بڑا کام ہوگیا ۔۔۔ اور وہ یہ کہ میں گزشتہ چند روز سے جماعت اسلامی کی قیادت اور جسٹس وجیہ الدین کو کشمیر کاز کے حوالے سے ایک پیج پہ لانے کے لیے جو دوڑ بھاگ کررہا تھا وہ محنت ٹھکانے لگی اور مسلسل رابطوں اور بات چیت کے بعد جماعت کے مرکزی نظم کے ایک اہم رہنماء و سابق امیر جماعت صوبہ سندھ جناب ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی جمعرات 24 اکتوبر کی شام جسٹس وجیہ الدین احمد کی رہائشگاہ پہنچ گئے اور وہاں ان سے دو گھنٹے سے زائد تبادلہء خیال ہوا ، اس موقع پہ میرے علاوہ جاوید بخاری ایڈووکیٹ اور شیخ طارق جمیل بھی موجود تھے۔

میری یہ کاوش اس خصوصی تناظر میں میں دیکھی جانی چاہیے کہ اب جبکہ 82 دن گزرچکے ہیں ، کشمیر کے معاملے پہ ملکی و بین الاقوامی سطح پہ ایک عجب خاموشی سی طاری ہوچکی ہے ۔۔ اور اسکی ایک بڑی وجہ تو اجتماعی بے حسی ہے ہی لیکن دو اور وجوہات نے بھی اس سکوت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ان میں ایک وجہ تو بین الاقوامی سطح پہ ترتیب پانے والے حالات ہیں جیسا کہ سعودی و خلیجی تیل کے جہازوں پہ ہونے والے حملوں کے نتیجے میں ایران و سعودی تنازع کا سنگین تر ہوجانا یا پھر کردوں اور ترکوں کے مابین محازآرائی اس حد تک بڑھ جانا کہ شام میں ترک افواج کے حملے ہونے کی نوبت آگئی ہے۔

اسکے علاوہ دوسری وجہ ملکی سطح پہ حالات میں کئی نئے موڑ آنے کا معاملہ بھی ہے کہ جن میں وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں کی گئی جذباتی ومگر بے بتیجہ و بےحل تقریر ،کہ جس نے اس مسئلے کو جلد از جلد ٍ حل کرنے کے امکانات کو بل ڈوز کرڈالا ہے کیونکہ اس تقریر نے ان لوگوں میں سے بیشتر کے لیے افیم کا کام کیا کہ جو اس ضمن میں بہت مضطرب تھے اور مزید شرمناک حرکت یہ کی گئی کہ غیر قانونی ایل او سی کو جو اب اپنی حیثیت کھوبیٹھی ہے اسے عبور کرکے بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں جانے کو ملک سے غداری کے مترادف ٹھہرادیا گیا – اس 450 کلومیٹر طویل ایل او سی پہ بھارت کو بیس پچیس فٹ اونچی باڑھ لگانے کی اجازت دیکر مشرف پہلے ہی کشمیریوں کی جدوجہد کے رستے کی دیوار بن کر  کھڑا ہوگیا تھا تو اب رہی سہی کسر اس پابندی نے پوری کردی ہے۔

اسی ضمن میں دوسرا عنصر فضل الرحمان کا آزادی مارچ و دھرنے کا اعلان ہے خصوصاً مولانہ کے اس آزادی مارچ نے تو میڈیا کی توجہ کشمیر کاز سے ہٹانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور اگر اس مرحلے  پر بھی کچھ دیوانوں نے کشمیر کو یاد رکھنے اور اسکے مسئلے کے حل کی جانب توجہ دلانی یاد نہ رکھی تو پھر یہ معاملہ بھی یونہی غتربود ہوکے تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوجائے گا۔

جسٹس وجیہ اور معراج الہدیٰ صاحب اور مجھ سمیت باقی دو شرکاّ کے ساتھ ہونے والی اس بات چیت میں کشمیر کے مسئلے کے مختلف پہلوؤں اور اس مسئلے کے ممکنہ حل کے بارے میں تفصیلی جائزہ لیا گیا اور اس امر پہ مکمل اتفاق کیا گیا کہ اس حوالے سے جماعت اسلامی اور جسٹس وجیہ اور انکی جماعت عام لوگ اتحاد مل جل کر کام کرینگے – اس گفتگو میں ہونے والی گفتگو کے کچھ حصے ظاہر نہیں کیے جاسکتے لیکن انکا حاصل یہ طرز احساس تھا کہ کشمیر کے غاصبانہ ادغام کو اب تین ماہ ہونے والے ہیں مگر اسکے حل کی بابت کوئی بھی پیشرفت دیکھنے میں نہیں  آئی اور عمران خان کی جانب سے ایل او سی پار نہ کرنے کی بات کشمیریوں کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے ۔ حکومتی اقدام محض ایک جذباتی تقریر تک محدود ہے اور یوں واضح طور پہ اس معاملے میں حکومت اور ادارے بےعملی کا شکار ہیں اور اہل فکر و نظر اور علمائے دین غیر ضروری مصلحتوں کا شکار ہیں ایسے میں کشمیر کے مضبوط کیس کو طاق نسیاں کی زینت بننے سے بچانا بیحد ضروری ہے اور اسکے لیے اب جماعت اسلامی اور جسٹس وجیہ باہمی مشاورت سے آگے بڑھیں گے۔

اس بات چیت کے ایک مرحلے پہ معراج الہدیٰ صاحب نے فون پہ رابطہ کرکے جسٹس وجیہ کی بات امیر جماعت سراج الحق سے بھی کرائی جس میں مشترکہ جدوجہد پہ اتفاق کیا گیا اور یہ طے پایا کہ دو چار روز میں جب سراج الحق کراچی آئیں گے تو انکی باہمی ملاقات بھی ہوگی اور مزید پیشرفت کی راہیں ہموار کی جائیں گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply