پاکستان ریلو ے،موت کا سفر۔۔۔ایم اے صبور ملک

میاں محمد بخش نے کہا تھا،سدا نہ کوئی مسافر تھیوے،کک جہناں تو ں بھاری۔سفر وسیلہ ظفر،حرکت میں برکت ہے،لیکن اگر اسی سفر کے دوران مسافر کو کوئی حاد ثہ پیش آجائے تو اس کے اہل خانہ پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس کاکوئی اپنا جس کوئی پیارا جس کے گھر کا چلانے والے جس کا سہاگ،جس کا بیٹا،ماں،بہو،بیٹی،بھائی،باپ جمرات 31اکتوبر کو تیزگام ایکسپریس میں زندہ جل مر ا ہو،دنیا میں آج تک ایسا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا کہ جب انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا خاص طور پر مسافر جو اپنے گھر اپنے اہل خانہ سے کئی کلو میٹر دور دیارغیرمیں ایسی حادثاتی موت کا شکار ہو اور اسکی کیفیت کو جانچ سکے،ایک مسافر کئی خواب اور کئی اُمیدیں لئے اپنے گھر سے روانہ ہوتا ہے،اور اپنی منزل پر بخیریت پہنچ کر جب وہ اپنے اہل خانہ کو اس امر کی اطلاع دیتا ہے تو انتظار کی سولی پر لٹکے اسکے لواحقین کی جان میں جان آتی ہے،لیکن 30اکتوبر کی شام کو کراچی کینٹ سے راولپنڈی کی جانب روانہ ہونے والی تیزگام کے جاں بحق ہو جانے والے مسافروں کے اہل خانہ کا انتظار اب قیامت تک جاری رہے گا،آنکھیں پتھرا جائیں گی،جسم نڈھال،آنسو خشک،صدیا ں سال بیت جائیں گئے لیکن انتظار نہیں ختم ہو گا،راقم کو اس روٹ پر متعدد بار سفر کرنے کا موقع ملا،شیخ رشید سے لے کر شیخ رشید تک ریلو ے کو اس دوران غلام احمد بلور،جاوید اشرف قاضی،خواجہ سعد رفیق جیسے وزراء ملے،جن میں ماسوائے سعد رفیق کے باقی کا عرصہ ریلوے پر بہت بھاری گزرا،بلور صا حب نے ذاتی گڈزاور مسافر ٹرانسپورٹ چلانے کے لئے ریلوے کو تختہ مشق بنایا،جاوید اشرف قاضی نے ریلوے کی بجائے این ایل سی کو ترجیح دی،شیخ صاحب نے ریلوے کو مسلم لیگ (ن) کے انتقام میں اس حال تک پہنچا دیا،ماسوائے سعد رفیق کے جنہوں نے ڈیفالٹ ہوتی اور نجکاری کی دہلیز پر کھڑی ریلوے کی وزارت کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا، سعد رفیق کے پانچ سالوں کے علاوہ ریلوے میں بہتری کبھی نہیں دیکھنے کو ملی،یہ میرا ذاتی تجربہ ہے،ٹرینوں کے اوقات کار میں معمول،ٹرینوں کے اندر صفائی،عملے کا رویہ باقی تین وزراء ریلوے کی بہ نسبت خواجہ سعد رفیق کے دور میں بہتر تھا،پاکستان ریلوے کے لئے وہ دن سب سے برا ور سیاہ تھا جب ریلوے کے مقابلے میں این ایل سی کا قیام عمل میں آیا،اور رہی سہی کسر نجی ٹرانسپورٹ مافیا نے پوری کردی،آج بھی ریلوے کے مقابلے میں فرسٹ کلاس کے کرائے نجی ٹرانسپورٹ کے کم ہیں سفر کا دورانیہ بھی کم ہے،کھانا اور ریفرشمنٹ بھی اچھی ہے،ایسے میں پاکستان ریلوے کو اپنے اندر بھی جدت اور تبدیلی لانا چاہیے تھی لیکن مال مفت دل بے رحم کے مصداق انگریز سے ورثے میں ملی ریلوے کو تباہ کرنے میں ہم نے کوئی کسر رواء نہ چھوڑی،اتنا بڑا حادثہ ہوگیا،بجائے وزیر ریلوے شیخ رشید نے شرمندہ ہونے اور مستعفی ہونے کے اُلٹا الزام مسافروں پر لگا دیا،اگر بالفرض یہ آگ مسافروں کے سلنڈر پھٹنے سے بھی لگی تو گیس سے بھرا سلنڈر ٹرین میں لے جانے کیوں دیا گیا؟یہ ذمہ داری کس کی تھی؟مسافر کی یا ریلوے کی؟اکانومی تو دور کی بات پاکستان ریلوے کے بزنس کلاس اور فرسٹ کلاس میں بھی ابھی تک آگ بجھانے کے آلات تک میسر نہیں،ہزارہ ایکسپریس اور عوام ایکسپریس میں خود راقم نے دیکھا ہے کہ ڈائنینگ کار میں لکڑی سے آگ جلائی جارہی ہوتی ہے،الیکٹرک اوون کا کوئی تصور نہیں، بوگیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کروانے میں ریلوے پولیس،ٹی ٹی اوردیگر عملے کا کوئی جواب نہیں،سوال بہت سارے کئے جاسکتے ہیں،سب سے پہلے یہ کہ اس آگ کا مکمل غیر جانبدار ہو کر ماہرین سے فرانزک کروایا جائے،کہ آیا یہ آگ واقعتا گیس سلنڈر کے پھٹنے سے ہوئی؟کیونکہ ملبے سے برآمد ہونے والے سلنڈر صحیح سلامت تھے،تبلیغی جماعت کے مسافروں کے بقول سارے سلنڈر وں سے گیس نکال کر انھیں خالی رکھا گیا تھا،جب سارے سلنڈر خالی تھے تو پھر سلنڈر کیسے پھٹ گیا؟چند مسافروں کے بقول شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگی رات سے بوگیوں میں بو آرہی تھی جس کی شکایت بھی کی گئی لیکن کوئی نوٹس نہ لیا گیا،ایک ممکنہ خدشہ تخریب کاری کا بھی ہو سکتا ہے،کیونکہ آگ کی شدت دیکھنے کے بعد کوئی بے وقوف سے بے قوف انسان بھی یہ اندازہ بخوبی لگا سکتا ہے کہ یہ آگ سلنڈر کے پھٹنے سے نہیں بلکہ کسی شارٹ سرکٹ یا آتشیں گیر مادے کی وجہ سے لگی ہے،جو پل ہی پل میں تین بوگیوں تک پھیل گئی،بحرحال جو بھی وجہ ہے سلنڈر پھٹا یا شارٹ سرکٹ،اسکا ذمہ دار پاکستان ریلوے،متعلقہ ٹرین ایگزمینر،کراچی اور حیدآباد کے سٹیشن ماسڑزاور ریلوے پولیس ہے،جو اپنے سرکاری فرائض منصبی سے کوتاہی کے مرتکب ہو ئے اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی اس قسم کے حادثات ہو چکے ہیں،لیکن جیسا کہ ہمارے ہاں معمول ہے ہر نئے حادثے کے بعد ہی ہمیں حفاظتی اقدامات یاد آتے ہیں،اور چند دن ہاہاکار مچی رہتی ہے اور پھر خاموشی،ضرورت اس امر کی ہے ایک پورے ڈویژن ایک پوری وزارت کو چلانے کے لئے کسی پنڈی بوائے کی جگہ ذمہ دارشخص کے حوالے کیا جائے اور ریلوے قوانین میں موجود حفاظتی اقدامات پر پورے محکمے کے افسران اور عملے کو عمل درآمد کروانے کی عادت ڈالی جائے نیز تیز گام حادثے کے مرتکب افراد وہ جو کوئی بھی ہے مسافر یا ریلوے کے ذمہ دارا ن ان کو سامنے لاکر قرار واقعی سزا دی جائے،اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس حادثہ جانکا کے تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحت کاملہ سے نوازے،آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply