تحریک انصاف حکومت میں وزیر اعظم عمران خان اور اُن کے وزراء اور مشیروں و معاونین خصوصی میں مراد سعید، فواد چودھری، شیریں مزاری،علی امین گنڈاپور، فیصل واوڈا، فردوس عاشق، شہزاد اکبر، فروغ نسیم اور شہریار آفریدی سمیت کچھ ایک کی پوری کوشش ہے کہ میاں نواز شریف، آصف علی زارداری سمیت دوسرے سیاسیتدانوں میں سے کوئی ایک یا سب کسی بھی طرح بالواسطہ یا بلاواسطہ خود پر لگے کرپشن الزامات کا اعتراف کر لیں۔ میاں نواز شریف کو علاج کے لئے لندن جانے کی اجازت دینے کے واسطے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام نکالنے کے لئے کرپشن الزامات کے برابر رقم کے سکیورٹی بانڈ حکومت کے پاس رکھوانے کی شرط سے اُس جھنجلاہٹ کا اظہار ہوتا ہے جس سے تحریک انصاف کی قیادت عدالتوں میں سیاستدانوں کے خلاف لگے کرپشن الزامات کو ثابت کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔ دراصل تحریک انصاف کی انتخابی مہم کی بنیاد ہی اس نقطہ پر قائم تھی کہ اُن کے علاوہ پاکستان بھر کے تمام سیاستدان کرپٹ بھی ہیں، نا اہل بھی ہیں اور پاکستان کے دشمن بھی ہیں۔ نیز یہ بھی کہ تحریک انصاف کے پاس دنیا بھر کے بہترین دماغوں میں سے کم از کم 200 لوگ ایسے ہیں جن کی وجہ سے اقتدار میں آتے ہی پاکستان کے تمام مسائل صرف100 د ن کے اندر اندر ہی حل ہو جائیں گے۔ اپنے تمام مخالف سیاستدانوں کے کرپٹ ہونے کا پروپیگنڈہ تو عدالتوں میں اُن کے خلاف جاری کیسوں میں نیب کی جانب سے الزامات ثابت نہ ہو سکنے پر غلط ثابت ہو رہا ہے جبکہ 200 بہترین دماغ رکھنے کا دعویٰ وزیر اعظم عمران خاں کے اس بیان سے جھوٹا ثابت ہوا کہ ’’مجھے اچھی ٹیم نہیں ملی‘‘۔ وزیر اعظم کا یہ اعتراف حکومت قائم ہونے کے صرف 100 د ن بعد نہیں آیا بلکہ ایک سال سے بھی زیادہ وقت گزارنے کے بعد آیا ہے۔
حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سکیورٹی بانڈ دینے کا مطلب ہے کہ تحریری اقرار کرنا کہ یہ بانڈز ضمانتی مچلکے ہیں۔ نواز شریف کرپشن کے ایک مجرم ہیں اور ان ضمانتی مچلکوں کی وجہ سے علاج کروانے کے بعد واپس آنے پر مجبور ہوں گے۔ اگر نون لیگ سکیورٹی بانڈز نہیں دے گی تو اُن کی طرف سے میاں نواز شریف کی سنگین بیماری کا ڈرامہ بھی بے نقاب ہو جائے گا جو کہتے تھے کہ ہر گزرتے لمحے میں میاں نواز شریف کی زندگی کو لاحق خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ حکومتی حلقوں کے اس غیر ذمہ دارانہ مؤقف کی تردید تو خود وزیر اعظم عمران خان کے بیان سے ہو جاتی ہے جنہوں نے کہا ہے کہ “میں نے مکمل چھان بین کرائی ہے، نواز شریف واقعی بہت بیمار ہیں”۔ حکومت کی طرف سے قائم کردہ میڈیکل بورڈ کے ڈاکٹروں اور میاں نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے اُن کی زندگی کو ہائی رسک پر قرار دے دیا ہے۔ میاں نواز شریف کو گزشتہ 96 گھنٹوں کے دوران سٹیرائیڈز کی دو دفعہ ہائی ڈوز دی گئی ہے تاکہ اُن کے پلیٹلیٹس platelets بڑھائے جا سکیں جو ابھی تک 55/60 ہزار کی حدود سے آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ واضح رہے کہ ایک نارمل صحت مند انسان میں پلیٹلیٹس platelets کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے 4 لاکھ کے درمیان ہوتی ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور کی حراست میں میاں نوازشریف کی طبیعت 21 اکتوبر کو خراب ہوئی اور ان کے پلیٹلیٹس platelets میں اچانک غیر معمولی کمی واقع ہوئی۔ سروسز ہسپتال منتقلی سے قبل سابق وزیراعظم کے خون کے نمونوں میں پلیٹلیٹس platelets کی تعداد 16 ہزاررہ گئی تھی جو ہسپتال منتقلی تک 12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گرکر 2 ہزار تک رہ گئی تھی۔ اس موقع پر حکومت کے تشکیل دئیے ہوئے میڈیکل بورڈ کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کو علاج کے لئے 10/12 دن کی دیر سے ہسپتال لایا گیا ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹروں نے اُن کے پلیٹلیٹس platelets بڑھانے کے لئے سٹیرائیڈز کی ہائی ڈوز دیں جن کی وجہ سےاگرچہ پلیٹلیٹس platelets بڑھ کر 55/60 ہزار کی حد تک تو پہنچ گئے مگر سٹیرائیڈز کی ہائی ڈوز کی وجہ سے میاں نواز شریف کو ہلکی نوعیت کا دل کا دورہ بھی پڑ گیا۔ میڈیکل بورڈ اور ڈاکٹر عدنان کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کے علاج کے لئے درکار جینیٹکس فارمیشن ٹیسٹ پاکستان میں نہیں ہو سکتا اور میاں نواز شریف کے علاج کے لئے اس کی بنیادی ضرورت ہے۔
حکومت کی طرف سے میاں نواز شریف کو لندن جانے کی اجازت دینے کے لئے سکیورٹی بانڈ کی شرط کو نون لیگ، نواز شریف اور اُن کی فیملی نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ عدالت کی طرف سے میاں نواز شریف کو ضمانت دیتے وقت بیرون ملک سفر کرنے یا نہ کرنے کی کوئی شرط نہیں رکھی گئی تھی۔ ضمانت کے موقع پر عدالت کی طرف سے درکار ضمانتی مچلکے فراہم کر دئیے گئے تھے، اُن کے بعد چند حکومتی وزراء کی اچھل کود کی بنیاد پر لندن جانے کے لئے ضمانتی مچلکے مانگنا غیر قانونی ہے۔ جب عدالت نے میاں نواز شریف کی ضمانت لیتے وقت اُن پر بیرون ملک جانے پر کوئی پابندی نہیں لگائی تو نیب یا حکومت کیسے ایسی شرط عائد کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی جب میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کو اُن کی غیر موجودگی میں بیگم کلثوم نواز کی شدید بیماری میں سزا سنائی گئی تھی تو وہ واپس آئے تھے حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ انہیں ائیر پورٹ آتے ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔ اس لئے اب بھی کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ چند حکومتی وزراء اپنی خواہش کی بنیاد پر عدالت کے حکم سے بالا کوئی شرط عائد کریں۔ میاں نواز شریف کی طرف سے علاج کے لئے لندن جانے کے عوض سکیورٹی بانڈ فراہم کرنے سے انکار پر اُن کے بھائی شہباز شریف گزشتہ روز سے جاتی امراء لاہور مقیم ہیں اور انہیں منانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت کا مطالبہ مانتے ہوئے یہ سکیورٹی بانڈ فراہم کر دئیے جائیں کیونکہ ملکی سیاست سے زیادہ ضروری میاں نواز شریف کی اپنی زندگی اور صحت ہے۔ شہباز شریف کی ان کوششوں کو مریم نواز شریف کی حمایت بھی حاصل ہے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے چچا شہباز شریف کی بجائے دوسری سائیڈ پر کھڑی ہوا کرتی ہیں۔نون لیگ نے پھر واضح کر دیا ہے کہ اگر میاں نواز شریف کو کچھ ہوا تو اُس کی ذمہ دار عمران خان حکومت ہو گی۔
دوسری ط رف نیب راولپنڈی عدالت نے سابق صدر آصف علی زارداری کی علاج کے لئے راولپنڈی سے کراچی منتقل کر دینے کی درخواست بھی مسترد کر دی ہے حالانکہ زارداری صاحب نے ضمانت نہیں مانگی تھی بلکہ صرف یہ کہا تھا کہ نیب کی تحویل میں رکھتے ہوئے انہیں اپنے ذاتی معالجین سے اپنے ذاتی خرچ پر علاج کے لئے پنڈی سے کراچی منتقل کیا جائے۔ نیب نے اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ علاج کے لئے آصف زارادری کو جن ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، وہ بتائیں، نیب انہیں یہ ڈاکٹر راولپنڈی میں ہی فراہم کر دیں گے۔ عجیب منطق ہے کہ ایک ملزم جس پر نہ ابھی الزام ثابت ہوا ہے، نہ اُس پر قائم مقدمہ کی تحقیقات مکمل کر کے نیب عدالت میں چالان جمع کروا رہا ہے مگر پھر بھی اُسے 5 مہینوں سے اُس کے صوبے سے دور وہاں جیل میں رکھا ہوا ہے جہاں پر اُس کے خلاف لگے الزام کا وقوعہ ہی نہیں ہے۔ اوپر سے اُسے اپنی مرضی کے ڈاکٹروں سے علاج کروانے کی سہولت بھی نہیں دے رہے۔ آصف زارداری کو تمام وکلاء کہہ چکے ہیں کہ جعلی بنک اکاؤنٹس کیس میں اُن کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہو سکتا اور اب تک نیب کی طرف سے چالان نہ پیش کر سکنے کی بنیاد پر انہیں عدالت سے ضمانت مل سکتی ہے مگر پوری جوانی بے جرم و بے خطا ء 12 سال تک اسیری میں بسر کرنے والا یہ شخص آج اسیر ہی نہیں بلکہ ضعیف اور علیل بھی ہے لیکن صابر اور خوددار اتنا کہ ضمانت کی درخواست دینے کا بھی روادار نہیں۔ کیسا پہاڑ جیسا مؤقف ہے زارداری صاحب کا کہ جرم ثابت کرو یا معافی مانگو، میں ضمانت کی درخواست نہیں دوں گا۔
عمران خان حکومت کے قیام کے بعد سے اُن کے جعلی نعروں بھری انتقامی کاروائیوں کا مقابلہ کرنے کے ضمن میں بطور جماعت پیپلزپارٹی اور بطور قائدین زرداری صاحب و بلاول بھٹو کا طرز عمل بھرپور رواداری، بُردباری کا حامل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ظاہر ہے دو الگ الگ جماعتیں ہیں لیکن دونوں کے قائدین اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ سیاستدانوں کی آپسی لڑائیاں درحقیقت غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط کرتی ہیں۔ اس لیے سول بالادستی اور سپریم پارلیمنٹ کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے سب سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر آنا ہو گا۔ جعلی بنک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کے کیسوں میں زارداری صاحب کی طرف سے ضمانت کی درخواست دینے سے انکار پر ڈٹے رہنے اور میاں نواز شریف کی طرف سے پاکستان میں ہی رہنے اور یہیں پر علاج کروانے کا حتمی فیصلہ کرنے کی صورتحال حکومت کے لئے بہت بھیانک موڑ اختیار کر سکتی ہے۔ زارداری صاحب تو خیر سیاست کے بے تاج بادشاہ ہیں اور پہلے بھی کبھی قید و بند سے نہیں گبھرائے مگر میاں نواز شریف نے بھی نہایت استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پہلے بھی خبروں کے مطابق انہیں ان کی والدہ اور بیٹی کے دباؤ کی وجہ سے باہر جانے کا مشورہ قبول کرنا پڑا تھا۔ جو خبریں سامنے لائی گئی تھیں اور اگر وہ سچ ہیں تو ان کا مؤقف تو یہی رہا ہے کہ اگر موت لکھی ہے تو وہ لندن میں بھی آسکتی ہے اور اگر پنجاب سے بھی ایک تابوت نکلے گا تو وہ اسے اپنی خوش نصیبی سمجھیں گے۔
کوئی کم ظرف ہی اس حقیقت کا انکار کر سکے گا کہ میاں نواز شریف کو ملک میں خصوصی سیاسی حیثیت حاصل ہے۔ وہ عوام کے ایک بڑے طبقے کے مقبول لیڈر ہیں۔ عمران خان کی سیاسی میراث کی بنیاد ہی میاں نواز شریف کی سیاسی مقبولیت سے انکار اور اسے گرانے کی خواہش پر استوار ہے۔ اس تناظر میں جب وہ نواز شریف کو علاج کے لئے لندن جانے کی اجازت دینے کے ضمن میں ’این آر او‘ کا انکار اور صرف انسانی ہمدردی کے تحت اجازت دینے کی بات کرتے ہیں یا ان کی صحت کے لئے دعا گو ہوتے ہیں تو اس میں دراصل وہ خود اپنے لئے سیاسی سرخروئی کا پہلو تلاش کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب نیب کی طرف سے میاں نواز شریف کو لندن جانے کی اجازت دینے سے متعلق معاملہ واپس حکومت کی طرف پلٹا دیا گیا تو ’این آر او‘ دئیے جانے کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے عمران خان کی انسانی ہمدردی اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رفو چکر ہوگئی اور اب وہ کابینہ کے بعد نیب اور عدالتوں کی آڑ میں گوشہء عافیت تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ انصاف اور سب کے لئے مدینہ ریاست کی مساوات نافذ کرنے کا اعلان کرنے والے وزیر اعظم کو تو اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ کیا ان کی مدینہ ریاست کے سب بیمار شہریوں یا قیدیوں کو بیرون ملک علاج کی وہی سہولت حاصل ہوتی ہے جو اس وقت نواز شریف کو دینا ضروری سمجھا جارہا ہے؟۔ اگر اس کا مثبت جواب ممکن نہیں ہے تو عمران خان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ نواز شریف اس ملک کے بڑے سیاسی رہنما ہیں اور ان کی علالت موجودہ حکومت کی منتقم مزاجی اور تساہل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور وہ اس کی ذمہ داری قبول کرنے کا بھی حوصلہ نہیں کرتی کیوں کہ اس کی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
شریف خاندان اس بارے میں کسی ابہام کا شکار نہیں ہے کہ حکومت میں موجود اُس کے مخالفین کس شدت کے ساتھ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر اس بارے میں انہیں کوئی شک و شبہ تھا بھی تو وہ بیگم کلثوم نواز کی علالت اور وفات کے موقعے پر ختم ہو چکا ہے جب انہیں مر کر ہی یقین دلانا پڑا کہ وہ واقعی بیمار تھیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نہ تو دائیں بازو کی جماعت ہے اور نہ ہی بائیں بازو کی اور نہ ہی یہ سنٹر کی پارٹی ہے۔ اس کا صرف ایک ہی سیاسی نظریہ ہے اور وہ نواز شریف اور آصف زارداری سے شدید نفرت کرنا۔ایک عام مشاہدہ ہے کہ تحریک انصاف کا ہر ووٹر اپنے لیڈر سے بھی زیادہ نواز شریف، آصف زارداری اور اُن کے خاندانوں سے شدید نفرت کرتا ہے جس کا اندازہ سوشل میڈیا کے ٹرینڈز ، کمنٹس اور بلاگز سے ہوسکتا ہے۔ وہ نواز شریف کو مرتا ہوا تو دیکھ سکتے ہیں مگر اس سے انصاف اور رحم والا معاملہ نہیں کر سکتے۔ جبکہ دوسری طرف خود عدالت بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہ صرف نواز شریف کی زیر سماعت مقدمے میں ضمانت منظور کر چکی ہے بلکہ العزیزیہ کیس میں سزا بھی آٹھ ہفتوں کے لئے معطل کرچکی ہے۔آصف زارداری اور نواز شریف کا بغض ایک سنگین مرض ہے۔ قومی معیشت کی زبوں حالی اور حکومتی نااہلی دیکھ کر اکثریت کے اس مرض کی شدت میں کماحقہ کمی ہورہی ہے اور ان کی آنکھیں کھل رہی ہیں مگر کچھ مریض ایسے بھی ہیں جن کا مرض مزید بڑھ رہا ہے۔ وہ جنونی ہوتے جا رہے ہیں اور خود انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کس کی پتلون اتارنے کے چکر میں کس کی اُتار رہے ہیں۔ یہ اپنے کچھ ناپسندیدہ سیاستدانوں کا منہ کالا کرنا چاہتے ہیں مگر و ہ کالک دراصل اُس سیاسی ماحول کے منہ پر مل رہے ہیں جس میں وہ خود زندہ ہیں۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ کالم کے آغاز میں دی جانے والی فہرست کے مطابق میاں نواز شریف کو لندن جانے کی اجازت دینے کی مخالفت کرنے والے اصلی سیاستدان نہیں بلکہ ان کی اکثریت وہ ہے جو خلائی مخلوق کی پیراشوٹس کے ذریعے ملکی سیاست میں اتارے گئے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں