اسے اب سفر سے نفرت ہے۔۔عمیر اقبال

یوں تو زندگی خود ہی اک سفر ہے یہ الگ بات ہے کہ بعض بخت والوں کا یہ سفر حسین ہوتا ہے جبکہ بعض آشفتہ سر اس سفر کی رنگینی سے محروم ہوتے ہیں لیکن زندگی کے سفر میں بھی کچھ سفر درپیش ہوتے ہیں کچھ اسفار بوجہ مجبوری جبکہ کچھ شوقیہ ہوتے ہیں۔ ماہین کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو شوقیہ اسفار کے دلدادہ ہوتے ہیں آج سے تین سال پہلے وہ ایک شوقیہ سفر پر ہمارے شہر آئی ہوئی تھی یہ بہار کا دلکش موسم تھا ٹھنڈی ٹھنڈی دُھوپ کا موسم جب گھنی بیری تلے کھڑی گھنی پلکوں والی خوب رو لڑکی پر پہلی نظر پڑتے ہی مَیں نے اسے اپنی روح سونپ دی تھی۔ وہ بھی میری شوخ مزاجی کے سحر میں مبتلا ہوئے بنا نہ رہ سکی اور ہم دونوں نے قلیل مدت میں ہی اپنی ڈورِ حیات ایک دوسرے کے ہاتھوں میں سونپ دی۔چھ عرصہ ایک دوسرے کی تلخی بھی میٹھی لگتی تھی پھر یوں ہوا کہ محبت پرانی ہو گئی بات اصولوں تک پہنچ گئی

کچھ عرصہ بعدمیری مردانگی کا درندہ جاگ اٹھا تھا وہ اب بھی زنانی محبت کا پیکر تھی لیکن میری حیوانیت غرّانے لگی تھی، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ڈانٹ ڈپٹ کرنا میرا شیوہ بن چکا تھا ہماری شادی کے تین سال بعد آج پھر وہی بہار کا دلکش موسم تھا اس نے اپنے سپنوں کی حسین عمارت میرے سامنے لا کھڑی کر دی۔

سنیے جی۔۔  میں چاہ رہی تھی کہ کیوں نا اس بہار میں ہم مری گھومنے چلیں؟

بہت سہہ چکا ہوں تمہاری یہ نوٹنکیاں، ہر دن اک نئی فرمائش لے کر پہنچ جاتی ہو، اب مزید برداشت نہیں ہوتے مجھ سے تمہارے یہ نخرے۔ میں نے بڑی بے رحمی سے اپنی اندر کی غلاظت اُس پر  انڈیل دی لیکن وہ سفر  سے عشق کرنے والی اتنی آسانی سے ہار ماننے والی نہیں تھی اب کی بار اس نے اک نیا داؤ آزمایا۔

سکندر!! تمہیں یاد ہے ہماری پہلی ملاقات بھی اک سفر میں ہوئی تھی اور وہیں  سے ہماری پریم کتھا کا آغاز ہوا تھا؟ ہاں تو اب کسی نئے عاشق کی تلاش ہے کیا؟ گھر میں دل نہیں لگتا تمہارا؟ کسی اور پریمی سے چکر لڑانے کا ارادہ ہے؟ مجھ میں کیا کمی ہے؟ کیا میں کافی نہیں تمہارے لئے؟ اس دفعہ میری درندگی چیخ چیخ کر اپنا وجود بیان کر چکی تھی۔

یہ باتیں سن کر وہ خاموشی سے اپنے کمرے  میں چلی گئی، ساری رات تکیہ اس کے اشکوں کو اپنے دامن میں سموتا  رہا، اس نے اپنی زبان سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا البتہ پچھلے بیس سالوں سے کبھی اس نے اپنے گھر کی دہلیز پار نہیں کی، نہ تب جب اسکی ماں کا انتقال ہوا، اور نہ ہی تب جب اسکا باپ زندگی کی آخری سانسیں کسی ہسپتال کے بیڈ پر تڑپ تڑپ کر لے رہا تھا البتہ ہماری محبت پر اس نے کسی قسم کی آنچ نہ آنے دی اور نہ اس نے اپنی زندگی میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی لائی، اسے ہر چیز سے محبت ہے۔ اگر آج اسے کسی چیز سے نفرت ہے تو وہ سفر ہے۔

Facebook Comments

عمیر اقبال
حقیقت کا متلاشی، سیاحت میرا جنون ، فوٹوگرافی میرا مشغلہ ماڈلنگ میرا شوق،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply