اُس کی پالیسیوں او ر جنگی حکمت عملی نے عراق میں امریکی فوجی کامیابیوں کی نئی داستان رقم کی تھی۔ اس کی سربراہی میں کام کرتی امریکی اسپیشل فورسز کی ٹاسک فورس 714 نامی ٹیم کو فوج کی خفیہ ترین ٹیم کا درجہ حاصل تھا جس کے ذمہ ہائی ویلیو ٹارگٹس کو ڈھونڈنا اور انہیں ٹھکانے لگانے کا کام تھا ۔
یہ وہ دور تھا جب عراق کے قصبے فلوجہ کے فائٹرز سقوط ِگروزنی کے بعد جدید جنگی تاریخ کی دوسری سب سے بڑی گوریلا جنگ لڑ رہے تھے اور امریکی فوج کو ہر گلی ہر گھر سے مزاحمت کا سامنا تھا۔ اس کے علاوہ اردن کے قصبے زرقا سے تعلق رکھنے والے ابو مصعب نے اتحادی افواج کو اپنی کارروائیوں سے تگنی کا ناچ نچایا ہوا تھا۔ پھر اسی نے ہی عراق میں ابو مصعب زرقاوی کی ہلاکت میں اہم ترین کردار کیا تھا۔ یہ اتنا اہم ٹارگٹ تھا کہ وہ بہ ذات خود اس کی لاش کی تصدیق کرنے گیا تھا۔ اس ہی نے سن 2003 میں بہ طورجوائنٹ اسپیشل آپریشن کمانڈر سابق عراقی صدر صدام حسین کو پکڑوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

ایک سال پہلے ہی سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے جنر ل ڈیوڈ میکرنن کو فارغ کر کے افغانستان میں امریکی فوجی کاروائیوں کی کمانڈ اس کے حوالے کی تھی۔ جون 2009 میں اسے جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر امریکی فوج اور انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس ایساف کا بھی سربراہ بنایا گیا تھا ۔ اپنی افغان تعیناتی کے بعد ہی اس نے ’آپریشن خنجر ‘ شروع کیا ، جو اس وقت تک اتحادی فوج کی سب سے بڑی فوجی کاروائی تھی ۔ یہ کامیابیاں شاید اس کے سر پر چڑھ گئیں ، اس نے امریکی حکومت کی افغان جنگ سے متعلق جنگی حکمت عملی پر کھلم کھلا بیان دینے شروع کیے جن میں جنگ کے ممکنہ نتائج اور امریکی فوجی تعداد میں اضافے کے مطالبات بھی تھے۔ یہ وہ باتیں تھیں جو دفاعی اور بین الاقوامی ماہرین کے مطابق بند کمروں میں بھی سرگوشیوں میں کی جاتیں ہیں ۔ اس نے اپنے غیر محتاط بیانات سے امریکی حکومت کو واسطہ یا بلاواسطہ زچ کرنے کی کوشش کی ۔ پھر وہ واقعہ بھی ہو گیاجس نے اس کے فوجی کیریر کی بساط لپیٹ دی اور خود کو ’ ناگزیر ‘ سمجھنے والا ’جنرل اسٹینلی مکرسٹل‘ بالآخر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا گیا.۔
جولائی 2010 میں مشہور میگزین ’ رولنگ اسٹون ‘ میں مائکل ہیسٹنگ کے تحریر کردہ مضمون ’ دی رن اَوے جنرل ‘ بہ معنی ’ بھگوڑا جرنیل ‘ میں جنرل میکرسٹل اور اس کے اسٹاف نے امریکی حکومت کے سویلین عہدیداروں اور ملازمین کا مضحکہ اڑایا اور ان کی تضحیک کی ۔ ان لوگوں میں امریکی نائب صدر، نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر، امریکی سفیر برائے افغانستان کارل آئکن بری اور پاکستان و افغانستان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک بھی شامل تھے ۔ جنرل میکرسٹل نے صدر اوبامہ کی پالیسیوں پر براہ راست تو بات نہیں کہ مگر اپنے معاونین کے ذریعے حکومتی فیصلہ سازوں اور فیصلوں کے خلاف بہت کچھ کہلوایا. ۔
نائب صدر جو بائڈن کو اس نے خاص طور سے نشانہ بنایا اور رکیک جملہ بازی کی۔ جب ان سب کو احساس ہوا کہ یہ برا ہو گیا تو جنرل نے نائب صدر کو کال کر کے معذرت کی اور جو بائڈن نے معاملہ اوبامہ تک پہنچایا۔ اوبامہ نے اس آرٹکل کا پروفائل منگوالیا اور سول اداروں اور شخصیات کو فوج کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنانے پر اوبامہ نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ۔ آرٹکل پڑھنے کے بعد اوبامہ نےجنرل میکرسٹل کو ملاقات کے لیے طلب کر لیا ۔
اس ملاقات کے لیے اوبامہ اپنے ذہن میں بالکل صاف تھا، اس نے بنا کسی تردد اور ہچکچاہٹ جنرل میکرسٹل کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر اس سے پہلے وہ اس سے بالمشافہ گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ ادھر افغان جنگ ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکی تھی اور قندھار پر امریکی اور اتحادی فوجوں کی ایک بڑی یلغار جاری تھی۔ افغان صدر حامد کرزئی نے بھی جنرل کی حمایت میں امریکہ سے درخواست کی اور اس کی جنگی حکمت عملیوں، افغان جنگ سے گہری واقفیت اور پیشہ ورانہ اور فوجی تجربے کی تعریف کرتے ہوئے اسے عہدے پر رکھنے کی درخواست کی۔ حامد کر زئی نے حالات کے پیش نظر جنرل کو فارغ نہ کرنے کی استدعا کی جو مسترد کر دی گئی۔
جب جنرل میکرسٹل اوول آفس میں صدر اوبامہ سے ملاقات کر رہا تھا، تو اس کا استعفی اس کی جیب میں تھا۔ وہ اپنے کیے اور کہے پر نادم تھا او ر ایک اور موقع کا امیدوار تھا۔ یہ ایک مختصر ملاقات تھی ۔ سادے لباس میں ملبوس امریکی فوج کے سپریم کمانڈر نے جنگی پہناوے میں ملبوس ایک کامیاب جنرل کو اختیارات اور اوقات سے تجاوز کرنے پر جنبش ابرو سے فارغ کردیا۔ اوول آفس میں ان دونوں کے درمیان کیا بات چیت ہوئی،وہ آج بھی راز ہے مگر میگزین کے بک اسٹینڈز پر آنے سے دو دن پہلے جنرل میکرسٹل نے عہدے سے استعفی دے دیا ۔
نیویارک ٹائمز کو وہائٹ ہاؤس کے ذرائع نے رپورٹ کیا تھا کہ اس ملاقات کے دو گھنٹے کے بعد چراغ پا اوبامہ نے وہائٹ ہاؤس کے سچویشن روم میں اپنی نیشنل سکیورٹی ٹیم کو ایک دوسرے سے الجھتے دیکھ کر سخت لتاڑا اور انہیں سختی سے حکم دیا کہ ’ فروعی اختلافات کو پس پشت ڈالیں اور افراد یا ان کی شہرت کو ان امریکی فوجیوں کی زندگیوں پر فوقیت نہ دیں جو محاز جنگ پر دشمن سے نبرد آزما ہیں ‘۔
صدر اوبامہ نے جنرل میکرسٹل کے ہی گُرو اور اس کے سب سے بڑے حمایتی جنرل ڈیوڈ پٹریاس کو کمانڈر بنا کر افغانستان بھیج دیا۔ حامد کرزئی کو بھی واضح پیغام پہنچ گیا ’ قومی سلامتی کے امور میں پیپلز نہیں پالیسیزاہم ہوتی ہیں ‘۔ حامد کرزئی نے بادل نخواستہ اس فیصلے کو قبول کر لیا ۔
اوبامہ نے کہا ’ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا، مگر یہی واحد اور درست فیصلہ ہے۔ حالیہ دنوں میں جنرل کی جانب سے اختیار کیا گیا روّیہ امریکی جمہوری اقدار اور سویلین بالا دستی کے خلاف تھا۔
دفاعی مبصرین اور امریکی میڈیا کی رائے تھی کہ اگر اوبامہ بہ طور امریکی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر یہ فیصلہ نہ لیتا تو جنرل تو درکنار کوئی باوردی سپاہی بھی اسے قابل ِ اعتنا نہ سمجھتا۔ وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے پینٹاگون میں تعیناتی کے دوران احتساب اور امریکی فوج پر سول بالا دستی کا جو کنٹرول میکنزم لگایا تھا وہ ناکام ہوجاتا۔
اس واقعے سے ساٹھ سال پہلے بھی صدر ہیر ی ٹرومین نے جنرل ڈگلس میک آرتھر کو کوریا کی جنگ کے درمیان فار غ کر دیا تھا، اس وقت بھی ایک جنرل نے سول بالادستی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تھی اور جمہوری حکومت پر لب کشائی کر کے اپنی حدود سے تجاوز کیا تھا۔ ایک بار پھر امریکی حکومت، ریاست اور عوام کے لیے جمہوری قوتوں کی بالادستی اور اس کےحقیقی اظہار کا ایک اور تاریخی موقع تھا ۔
یوں گذرے ایک سال میں عین دوران جنگ دوسری مرتبہ امریکی فوج میں جنگ کی قیادت کرتے سپہ سالار کی تبدیلی رونما ہوئی ،جب جنرل ڈیوڈ میکرنن کو فارغ کر کے افغان جنگ کی کمان عراق سے کامیاب لوٹے جنرل میکرسٹل کے سپرد کی گئی تھی اور اب بعد الذکر کی جگہ جنرل ڈیوڈ پٹریاس کو تعینات کیا گیا تھا۔
جنرل میکرسٹل پہلے ہی اپنی غلطی پر معافی مانگ چکا تھا اور رولنگ اسٹون میگزین کو دئیے گئے اس ا انٹر ویو پر ندامت کا اظہار کا کر چکا تھا جس نے افغانستان میں امریکی سیاسی عملداری اور فوجی حکمت عملی کی چولیں ہلا ڈالیں تھیں۔ اس نے اپنا معافی نامہ تحریر کیا ۔ کئی برسوں کے بعد ایک انٹرویو میں اس نے کہا ’جو ہوا ، اس کی کلی ذمہ داری مجھ پرہے، بہ طور کمانڈر، ہر اچھے اور ہر خراب عمل کی ذمہ داری میری ہے اور میں اسے قبول کرتا ہوں‘۔

صدر اوبامہ کے اس فیصلے سے نہ قومی سلامتی لڑکھڑائی اور نہ ہی قومی مفاد کی شلوار گیلی ہوئی اور نہ محاذ جنگ پر موجود امریکی فوجیوں کا مورال ڈاؤن ہوا۔اوبامہ کے اس فیصلے پر کہیں بھی ’ کرزئی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے ‘ کے نعرے بلند نہ ہوئے اور نہ ہی کسی نے بغاوت کا مقدمہ چلا نے اور گولڈن گیٹ برج پر پھانسی کا مطالبہ کیا ۔ امریکی شاہراہوں پر کہیں بھی ’ میکرسٹل حمایت موومنٹ‘ کے بینر نہیں لگے ۔ کسی ٹاک شو میں سول ملٹری پُر پیچ تعلقات کے ایک پیج پر ہونے نہ ہونے کی بحث نہ ہوئی اور نہ ہی کہیں سے ’ آجا تینوں اکھیا ں اڈیک دیاں ‘ کے سرگم بلند ہوئے۔
اوبامہ کے اس فیصلے نے یہ ثابت کر دیا کہ امریکی قوم فکری اور صلاحیتی اعتبار سے بانجھ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فرد ناگزیر ہے ۔
سن د2010 میں کیے گئے اوبامہ کے اس فیصلے نے دنیا کو بتا دیا کہ قوموں کی زندگی میں افراد کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جمہور میں دَم ہونا چاہیے، اور یہ کہ ریاست امریکہ بانجھ نہیں ہے، اِدھر جنرلوں کی کمی نہیں ، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں !
ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں چہرے نہیں نظام سلامتی کا ضامن ہے. اسی نظام کی مضبوطی ہی قومی مفاد ہے باقی سب اسٹیج کے کردار ہیں، جنہیں جانا ہی ہوتا ہے.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں