مشرف دور میرے لیے زمانہ طالب علمی تھا۔ ابا جی کے پی (تب کے صوبہ سرحد) اسمبلی میں سرکاری ملازم تھے۔ ہر آمر کے دور میںاسمبلی کی کاروائی رک جانے سے کئی اضافی الاؤنس ختم ہوجایا کرتے تھے۔ نتیجتاً ہر آمر اسمبلی سٹاف کی ہجو گوئی کا مشترکہ نشانہ بناکرتا۔ تب بھی ایسا ہی ہوا، لہذا مشرف دور میں بھی ذاتی حیثیت میں اس کے علاوہ کوئی خاص نقصان ہمیں نہیں پہنچا۔ مجموعی طورپر مشرف غدار نے قوم کو جو نقصان پہنچایا وہ اس وقت موضوع تحریر نہیں البتہ ناقابل تلافی ضرور ہے۔ کم از کم میری رائے یہیہے۔
آئین توڑنے پر اس سے پہلے کبھی کسی فوجی کو سزا نہیں ہوئی۔ پہلے کو ہوجاتی تو شاید آئیندہ مارشل لاء کی ہمت کوئی نہ کرتا۔ دیر آئےدرست آئے۔ البتہ اوپر دیے گئے نقصان کے علاوہ مشرف غدار سے ذاتی طور پر کوئی خلش نہ تھی نہ ہے۔ غدار کی تعریف اور سزاآئین میں درج ہے۔ یعنی اس سزا کے حق میں ہونے کا جواز اور بنیاد آئین ہی فراہم کرتا ہے۔ ہمارا ابناء العساکر سے مطالبہ بھیبس اتنا ہی ہے کہ اپنی مراعات لیتے رہیے ڈی ایچ اے، بحریہ، اوکاڑہ پر قبضہ بھی کر لیں مگر ڈھنگ سے، کسی جواز کو بنیاد بنا کر۔بس اتنا احسان کریں کہ جمہوریت کے ساتھ کر دس سال بعد زنا بالجبر سے گریز کیجیے۔ وہ آج یہ بات مان لیں ہم باقی کے جوانوں کیطرح ان کے بڑوں کو بھی سر کا تاک بنا لیں۔ آئین سپریم ہے، بالادست ہے بس اتنی سی گزارش ہے کہ وہ بھی اسے سپریم اوربالادست مان لیں۔
خصوصی عدالت کا جو مختصر فیصلہ آیا وہ آئین کے عین مطابق تھا۔ مشرف پاکستان نہ آتے، شاید زیادہ خوشی ملتی کہ ایک انسانی جانبہرحال پھندے پر جھولنے سے بھی بچ گئی اور آئین کا بھرم بھی رہ گیا۔ پیرا ۶۷ میں البتہ جج صاحب نے ہگ دیا۔ موت کی صورتمیں تین دن کیا تین سیکنڈ بھی لاش کو پھندے پر چڑھانا غیر آئینی، غیر انسانی فعل ہے۔ یہ لاش کی، پھر چاہے کسی بدترین طالبانیدرندے ہی کی کیوں نہ ہو، بے حرمتی ہے، سنگدلی کا استعارہ ہے، انسانیت کی توہین ہے۔ اس قسم کے فقرے لکھنا اسی آئین کیبنیادوں کے خلاف ہے جس کے تحت غدار کی سزا موت ہے۔ ایسی خواہش کا اظہار کرنے پہ تو ہم کسی سیکولر لبرل کو نہ بخشیںپھر آپ، معزز جج ہوکر کیسے اس نیچ پنے سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟
جج صاحب، یہاں معاملہ کسی کے جرائم کی سنگینی کا نہیں، یہ معاملہ آئین میں درج سزا دینے کے طریقہ کار کا ہے۔ آپ نے اگلے پیرامیں اپنے تئیں وضاحت دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ چونکہ ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا لہذا یہ فیصلہ اس ضمن میں مثال قائمکرے گا۔ جج صاحب، اس خواہش کے اظہار پر بھی آپ کا مواخذہ بنتا ہے، کجا اسے فیصلے کی شکل دینا۔ اس قسم کی خواہش کااظہار کر کے آپ نے اپنی ظالمانہ ذہنیت کی عکاسی کی ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ آپ اس منصب کے قابل بھی ہیں یا نہیں؟
جج صاحب انسان جب مر جایا کرتا ہے تو اس کا معاملہ اس کے اور رب کے درمیان چلا جاتا ہے۔ اسی اصول کے تحت ہم ضیاءجیسے ظالم آمر کی موت کے بعد اس کے کردار کو زیر بحث لانے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ آپ نے ایک زندہ مجرم کی موت کےبعد اس کی لاش کے بارے میں ایسی خرافات کہنے کا فیصلہ کس حیثیت میں کر لیا؟ کیا آپ خود کو نعوذ باللہ خدا سمجھنے لگے ہیں؟
کیا آپ بھی عوام کو گوبھیاں سمجھتے ہیں کہ جو ذاتی خلش کو گھٹیا پن کی اس نہج تک لے جائے گی؟ کیا آپ کو لگتا تھا کہ ہم مشرفسے اختلاف نہیں نفرت رکھتے ہیں اور نفرت بھی آپ کے درجے کی کہ جس پر ہم اس سطح پر چلے جائیں گے جہاں آپ ہیں؟ ججصاحب کیا ہم آپ کو ایک سازش کا حصہ مان لیں جس کے تحت آپ نے ایک درست فیصلے میں ایک ایسی ذیلی شق ڈال دیہے جو پورے فیصلے پر حاوی ہو کر آئیندہ کے لیے ایسے فیصلوں پر پہنچنا مشکل تر بنا ڈالے گی؟ جج صاحب آپ نے اس تمام فضاءکو متعفن اور بدبودار کر دیا ہے جو غداری کے مجرم کے خلاف ریاست بھر میں آئین کی بالادستی کی پہلی مثال کے بعد قائم ہوئیتھی۔
جج صاحب اگر لاشوں کو پھندے دینے ہیں تو آپ میں اور لاشوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟

ہگ ڈالا جج صاحب، آپ نے اس شق کے ذریعے پورے فیصلے پر ہگ ڈالا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں