ملک اعجاز SSP(مرحوم) میرے کام کی وجہ سے مجھ پر بہت مہربانی کیا کرتے تھے۔سرکل صادق آباد کے تمام SHOصاحبان سے دوستوں جیسا تعلق تھا۔سندھ میں ریڈ پرجاتے تو تمام SHOاپنی نفری کے ہمراہ ہوتے اگر کوئی SHOنہیں آتا تھا تو پھر سرکل کی تمام نفری کو کھانا کھلاتا تھا۔سندھ پولیس سے بھی تعلقات اچھے تھے۔
ایک دن مجھے ریڈر SSPنے پیغام دیا کہ فوری طور پر SSPآفس رحیم یارخان پہنچیں SSPصاحب آپکو یاد کررہے ہیں میں تقریباََ ایک گھنٹے میں مَیں رحیم یار خان پہنچ گیا مجھے پہلے کبھی ملک اعجاز صاحب نے اس طرح نہیں بلوایا تھا۔ سوچ رہا تھا خدا خیر کرے کیونکہ افسر افسر ہوتا ہے اس کے بدلنے کا کوئی وقت نہیں خاص طور پہ محکمہ پولیس میں جہاں آپ کے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمن بھی بہت ہوتے ہیں۔
دفتر کے دروازہ پر کھڑے ہوئے اردلی نے میرے لیے دروازہ کھولا اور بولا صاحب آپکا ہی انتظار کررہے ہیں۔میں نے اندر جاکر SSPکو سلیوٹ کیا۔کمرہ میں ان کے علاوہ دو افراد اور بھی موجودتھے۔شکل و صورت سے پڑھے لکھے اور اچھے خاندان کے معلوم ہوتے تھے۔ملک اعجاز صاحب نے مجھے بیٹھنے کاکہاتھوڑی دیر کمرے میں خاموشی رہی پھرSSP بولے “یہ راجہ محفوظ ہیں،ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی تھے جب بھٹو نے صادق آباد میں جلسہ کیا تھا تو جلسہ میں ہنگامہ ہوگیا تھا انھوں نے بھٹو کی جان بچائی تھی ذوالفقار بھٹو ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے “دوسرے شخص کے بارے میں SSPصاحب نے بتایا کہ یہ راجہ حمید ہیں اور رحیم یار خان کے زمیندار ہیں۔ کمرے میں پھر خاموشی چھا گئی میں بھی سر جھکا کے بیٹھا رہا۔SSPصاحب دوبارہ بولے عزیز آپ سے ایک بات شیئر کرنی ہے مگر اس کے بارے میں کسی کو نہیں بتانا یہ ہم چار لوگوں کے درمیان بات ہے پھر SSPصاحب نے اپنی میز کی دراز میں سے قرآن پاک نکالا خود بھی اس پہ ہاتھ رکھا، راجہ محفوظ اور راجہ حمید نے بھی اپنی کرسیوں سے اُ ٹھ کر قرآن پاک پر ہاتھ رکھ دیا میں نے بھی ان کو دیکھتے ہوئے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ دیا اور پھر واپس جاکر اپنی کرسی پہ بیٹھ گیا۔اب راجہ محفوظ بولے کہ پنوں عاقل کا رہائشی غلام رسول پتافی کیمیا گر ہے کچن میں استعمال ہونے والی اشیاء کے ساتھ سونا بناتا ہے تانبے کو گوبر کے اوپلوں میں گرم کر کے کوئی محلول یا سفوف لگاتا ہے جس سے سونا بن جاتا ہے۔غلام رسول پتافی نے میرے اور راجہ حمید کے سامنے یہ عمل کرکے پنوں عاقل میں سونا بنایاتھا۔اگر اسے کسی مقدمہ میں گرفتار کر کے پنجاب لے آیا جائے تو اس سے کافی مقدار میں سونا بنوایا جاسکتاہے۔اس میں ہم چار حصے دار ہوں گے اور یہ بات کوئی کسی کو نہیں بتائے گا۔
SSPصاحب نے مجھے کہا کہ اب غلام رسول پتافی کی نشاندہی کے لیے راجہ حمید آپ کے ساتھ جائے گا یا اپنا کوئی آدمی بھیجے گا جو پتافی کا گھر دکھائے گا۔
میں تھانہ پر واپس آگیا اگلے روز حسب وعدہ صبح صبح راجہ حمید اپنے ساتھ ایک آدمی کو لے کر تھانہ کوٹ سبزل آگیا۔میں نے طاہر خان ASIجو آج کل انسپکٹر SHOاوچشریف لگے ہوئے ہیں کو یہ ٹاسک دیا نذیر نیازی ڈرائیوراور اپنے کچھ جوان بھی طاہر خان کو دیئے۔راجہ حمید کے ساتھ آیا ہوا آدمی بھی ان کے ساتھ روانہ کیا۔میرے تھانے کے ملازمین اب اتنے ایکسپرٹ ہوچکے تھے کہ سندھ سے کوئی آدمی اٹھانا مشکل نہ تھا۔ بس انہیں ایک ہدایت تھی کہ آدمی اٹھانے کے بعد رُکنا نہیں ہے۔شام کو طاہر خان کامیابی کے ساتھ غلام رسول پتافی کو پنوں عاقل سے اُ ٹھا کر لے آیااور بتایا کہ یہ پنوں عاقل شہر میں ایک ہوٹل پر بیٹھا ہوا تھا ہم نے اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور لے آئے ہیں کسی کو بھی علم نہیں ہے کہ کون اٹھا کرلے گیا کیونکہ نہ تو گاڑی کی نمبر پلیٹ تھی اور نہ ہی ہم نے یونیفارم پہنی ہوئی تھی۔ میں نے SSPملک اعجاز صاحب کو بتا دیا جنھوں نے مجھے کہا کہ اسے تھانے میں نہیں کہیں علیحدہ جگہ پہ رکھا جائے۔
طاہر خان ASIو دیگر ملازمین کو کچھ نہیں بتایا گیا تھا کہ غلام رسول پتافی کو کیوں گرفتار کروایا گیا ہے اور آج تک انھیں اس بات کے بارے میں معلوم نہیں ہے شاید اب یہ تحریر پڑھنے کے بعد انھیں معلوم ہو کہ غلام رسول پتافی کو کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟
پتافی کوطاہر خان کے رہائشی کواٹرکے ایک خالی کمرہ میں رکھا گیا نذیر نیازی اورغلام قاسم کو اس کی حفاظت پر معمور کیا گیا۔ رات کو راجہ محفوظ اور راجہ حمید بھی میرے پاس کوٹ سبزل آگئے اب اگلا مرحلہ کیمیاگر سے تفتیش کا تھا۔تفتیش پر غلام رسول پتافی نے نہ صرف راجہ محفوظ کو پہچاننے سے انکار کردیا بلکہ اس بات سے بھی مکرگیا کہ اس نے کبھی سونا بنایا تھا۔مجبوراً مجھے غلام قاسم اور نذیر نیازی کو بھی اعتماد میں لینا پڑا،اس بات کی اجازت میں نے راجہ محفوظ سے لے لی کیونکہ اب تفتیش کے لیے کچھ ملازمین کی ضرورت پڑنی تھی۔تقریباََ دو گھنٹے تک غلام رسول سے تفتیش کرتے رہے مختلف حربے بھی اختیار کیے مگر وہ کچھ نہ مانا۔
غلام رسول پچاس، پچپن سال کا ادھیڑ عمر شخص تھا۔بڑی بڑی مونچھیں،چھوٹی چھوٹی سفید داڑھی شکل و صورت سے کہیں سے بھی مجھے کیمیا گر نہ لگ رہا تھا۔ رات کودیر سے راجہ محفوظ اور راجہ حمید رحیم یار خان چلے گئے۔میں ان کے جانے بعد بھی غلام رسول سے سونے کے بارے میں پوچھتا رہا مگر وہ مسلسل انکار کرتا رہا۔۔۔ اب میں بھی تھک چکاتھا۔۔۔میں نے نذیر نیاز ی اور غلام قاسم کو کہا کہ اب وہ اس سے اگلوانے کی کوشش کریں لیکن اس بات کو بھی دھیان رکھیں کہ کوئی تشدد نہ کیا جائے کیونکہ غلام رسول ہمیں پہلے بتاچکا تھا کہ وہ دل سمیت متعددبیماریوں کا مریض ہے۔ میں نے تمام حالات SSPصاحب کو بذریعہ ٹیلی فون بتادیئے۔مجھ سے قبل راجہ محفوظ بھی انھیں فون پر ساری بات بتاچکے تھے۔ملک اعجاز نے مجھے ہدایت کی کہ اگلے روز پتافی کو لے کر ان کے دفتر پہنچ جاؤں کیونکہ اس وقت دفتر میں زیادہ لوگ نہیں ہوتے۔
دوسرے دن میں غلام رسول کو لے کر تقریباً ۹ بجے SSPآفس پہنچ گیا۔میرے آنے سے پہلے SSPصاحب اپنے دفتر میں موجود تھے اور میرا انتظار کررہے تھے۔غلام رسول کے چہرے پر ہم نے نقاب چڑھایا ہوا تھا اور ہتھکڑی لگا رکھی تھی۔دفتر کے دروازے پر اسکی ہتھکڑی میں نے پکڑ لی اور اندر چلا گیا۔کمرہ میں SSPصاحب اکیلے تھے میں نے غلام رسول کے چہرے سے نقاب اتار دیا۔۔کافی دیر تک ملک صاحب اس سے پوچھ گچھ کرتے رہے مگر وہ اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھا کہ وہ سونا بناتا ہے۔ملک صاحب نے پتافی کو باہر لے جانے کا کہا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اسے باہر چھوڑ کر آپ واپس آجائیں۔میں نے پتافی کے چہرہ پر دوبارہ نقاب چڑھا دیا باہر آکر پتافی کو نذیر نیازی کے حوالے کیا اور خود واپس کمرہ میں آگیا۔ملک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے یا سچ؟؟؟ میں نے کہا سر! بات میری سمجھ میں بھی نہیں آرہی تھوڑا مزید وقت دیں پھر میں آپکو اس بارے میں کچھ بتاسکوں گا۔ میں پتافی کو لے کر واپس کوٹ سبزل آگیا۔قبل ازیں میں بھی کیمیاگری کے بارے میں کچھ سن چکا تھا زمانہ طالبعلمی میں جاسوسی ڈائجسٹ میں کیمیاگر کے نام سے ایک کہانی بھی پڑھ چکا تھا۔ہماری فیملی میں بھی ایک بزرگ ایسے تھے جنھیں کیمیاگری کا جنون کی حدتک شوق تھاکبھی کبھی وہ بہت خوش دکھائی دیتے تھے۔۔۔۔۔خود ہی ہمیں بتاتے تھے کہ بس اب تھوڑی سی کمی رہ گئی ہے چھوٹی سی کیمیاگری کرنی ہے اور سونا تیار ہوجائے گا۔ دوسرے دن وہ اداس اور پریشان ہوتے کہ کوشش تو بڑی کی سونا بن بھی گیا مگرسختی کم نہ ہوئی۔میں نے ان سے بھی رابطہ کیا اور تمام حالات سنائے تو وہ خوشی سے اچھل پڑے اور بولے کہ ضرور یہ شخص سونا بناتا ہوگا۔اُن کی اس بات سے میرے دل کو تسلی ہوئی اور میں نے اس اُمید پر کہ اگر سونا بن گیا تو زندگی سنور جائے گی پوری دل جمی اور ایمانداری سے غلام رسول پتافی سے تفتیش شروع کردی۔
اب میں زیادہ تروقت پتافی کی تفتیش پر لگاتا نذیر نیازی اور غلام قاسم بھی میرے ہمراہ ہوتے۔دل میں یہ دعائیں بھی کرتا کہ اللہ کرے سونا بنانے کا نسخہ ہاتھ آجائے۔پانچ دن گزر چکے تھے۔۔۔ سردیوں کا موسم تھا۔۔۔ صبح صبح میرے دروازے پر دستک ہوئی باہر نکلاتو نذیر نیازی پریشان کھڑا تھا بولا سر پتافی کی طبعیت خراب سے چل کر اسے دیکھیں۔میرے ذہین میں ایک دفعہ تھانہ یزمان والا واقعہ گھوم گیا لیکن پھر دل کو تسلی دی کہ غلام رسول سندھ کا رہنے والا ہے اگر ایسا کچھ ہوا تو ہڑتال سندھ میں ہی ہوگی کوٹ سبزل میں نہیں اور نہ ہی کسی کو کچھ معلوم تھاکہ پتافی کو کون اٹھا کرلے گیا ہے۔طاہر خان کے کواٹر پر پہنچاتو پتافی نیچے زمین پر لیٹاہوا تھاتکلیف سے کراہ رہا تھا۔پوچھنے پر بولا کہ اسے ہرنیا کی تکلیف ہے نذیر نیازی نے اس کی چادر پوشیدنی ہٹائی تو میں پریشان ہوگیا اتنا بڑا ہرنیا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔کوٹ سبزل میں کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹربھی نہیں ہوتا تھا۔۔۔نہ ہی سرکاری ہسپتال تھا۔۔۔۔قریب ہی ایک عباسی نامی ڈسپنسر رہتاتھا۔کسی بیماری کی صورت میں صرف وہی دستیاب ہوتا۔غلام قاسم عباسی کو بلا کرلایا۔چیک کرنے پر عباسی نے بتایا کہ اسے واقعی ہرنیا ہے کچھ دوائیں دئیں اور احتیاط کا بولا۔پتافی کی بیماری کے باوجود بھی سونا بنانے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ ہم نے اسے جگراتے پرلگادیااور تفتیش میں کوئی کوتاہی نہ کی۔ کھانا اچھا دیتے تھے تاکہ اسے نیند آئے لیکن اسے سونے نہ دیتے تھے۔مسلسل جاگنے کی وجہ سے پتافی کی حالت خراب تھی اس دوران راجہ محفوظ بھی مسلسل کوٹ سبزل آتا رہا اور SSPبھی مجھ سے روزانہ صبح شام پوچھتے رہتے تھے کہ کیا ہوا؟پتافی کو شاید ہماری حالت پہ ترس آگیا تیسرے دن شام کو پتافی بول پڑا اور یہ بات مان گیا کہ اس کی ملاقات راجہ محفوظ سے پنوں عاقل میں ہوئی تھی ان کے سامنے سونا بھی بنایا گیا تھا مگر وہ میرے چھوٹے بھائی نے بنایا تھامیں نے نہیں وہ مجھ سے پانچ سال چھوٹا ہے اوراس کی شکل بھی مجھ سے ملتی ہے۔وہ ایک جنگلی بوٹی لاتا ہے جس سے سونا بنتاہے۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ جنگلی بوٹی کہاں سے ملتی ہے میرابھائی ہی بتاسکتاہے میں نے فوری طورپر راجہ محفوظ کو بلوایا پتافی نے ان کے سامنے بھی اس بات کو تسلیم کیا اور انھیں پہچان بھی لیا۔تھوڑی دیر بعد پتافی کا ہرنیا بھی ٹھیک ہوگیا۔پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے ہرنیا چھوٹا بڑا کرلیتا ہے۔پتافی کا جسمانی تشدد سے بچنے کا یہ حربہ بھی میرے لیے نیاتھا۔
غلام رسول پتافی کا اصل گھر پنوں عاقل شہر سے تقریباََ سات آٹھ کلومیٹر دور تھا۔اس گاؤں میں زیادہ تر پتافی قوم آباد تھی جہاں پر ریڈ کرکے پتافی کے بھائی محمد بخش کو پکڑنا بہت مشکل تھا۔یہ اطلاعات بھی تھیں کہ غلام رسول کے ورثہ اسے تلاش کررہے ہیں۔اگر ہم غلام رسول کو چھوڑتے اور اسے کے بھائی کو پیش کرنے کا کسی زمیندار کو کہتے تو غلام رسول گھر جا کر ساری بات بتا دیتا اس طرح شاید اس کا بھائی پیش نہ ہوتا۔بہتر سمجھا کہ غلام رسول کی گرفتاری کو خفیہ رکھا جائے اور اسکے بھائی کو پکڑا جائے۔غلام رسول کے اس طرح غائب ہوجانے سے اس کا بھائی بھی شاید محتاط ہوچکا تھا اوراپنے گاؤں سے باہر نہیں آتا تھا۔دو دفعہ اطلاع پر پنوں عاقل شہر میں بھی اسے پکڑنے کے لیے بیٹھے رہے مگر پتافی کا بھائی نہ پکڑا جاسکا۔ اب ایک ہی حل تھا کہ گاؤں میں اس کے گھر پر ریڈ کیا جائے مگر اس میں مزاحمت کا شدید خطرہ تھا کیوں کہ پتافی قوم میں بہت سے جرائم پیشہ افراد بھی شامل تھے جو اسی گاؤں میں رہتے تھے اور پھر ہمارے لیے اس گاؤں سے باخیریت نکلنا مشکل ہوتا۔میں نے SSPصاحب کو بھی سارے حالات بتائے جنھوں نے مجھے کہا کہ احتیاط کے ساتھ جوکرنا ہے کریں مگر اب محمد بخش پتافی کی گرفتاری لازمی ہے کیونکہ ملک صاحب کواب سونا بنتا صاف نظر آرہا تھا بس محمد بخش کی گرفتاری راہ میں حائل تھی۔
محمد بخش پتافی کی گرفتاری کے لیے سب سے پہلے میں نے غلام رسول سے اس کے گھر اور قریبی گھروں کے بارے میں دریافت کیا پھر مخبر کے ذریعے اس کے گھر کا نقشہ بنوایا آنے اور جانے والے راستوں کا انتخاب کیا کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ پولیس ملازمین ریڈ پر توچلے جاتے ہیں مگر انھیں مکمل بریفنگ نہیں کی جاتی ہے کہ وہاں کتنا خطرہ ہوسکتاہے۔واپس نکلنے کے راستوں کے بارے میں بھی ڈرائیورز کو معلوم نہیں ہوتا۔ اکثر ڈرائیور ریڈ پر گاڑیاں موڑ کر کھڑی نہیں کرتے اگر دوران ریڈ مزاحمت ہوجائے تو پھر اکثر لوگ گاڑیوں کو بھی تباہ کردیتے ہیں۔میرے ڈرائیورز اور ملازمین مکمل تربیت یافتہ تھے میں دوران ریڈسند ھ اکثر دو گاڑیاں لے کہ جاتا تھا جن میں بارہ سے پندرہ ملازمین ہوتے تھے۔ہر ملازم کو اپنے کام کے بارے میں مکمل آگاہی ہوتی تھی کہ کس نے میرے ساتھ اندرداخل ہونا ہے اور کس نے باہر رُکنا ہے۔ رات کو دو بجے میں ملازمین کے ساتھ ریڈ کے لیے روانہ ہوگیا۔مخبر کی نشاندہی پر محمد بخش پتافی کے گھر پہ ریڈ کیا پتافی کا گھر گاؤں سے تھوڑا ساباہر تھا محمد بخش گھر پہ موجود تھا جس کو ہم نے قابو کرلیا لیکن اس کے ساتھ سوئی ہوئی خاتون جو اس کی بیوی تھی نے شور کرنا شروع کردیا “پنجاب جودھاڑیل آئے”یعنی پنجاب کے ڈاکوآگئے ہیں اس کا شور سنتے ہی چاروں طرف سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ہم نے فوری طور پر محمد بخش کو ویگن میں ڈالا گاڑیاں پہلے سے اسٹارٹ تھیں جوں ہی میں گاڑی میں بیٹھا گاڑیاں روانہ ہوگئیں۔وہاں تھوڑی دیر رُکنے کا مطلب خود کو مشکل میں ڈالنا ہوتا۔ہم لوگ بخیریت گاؤں سے باہر آگئے۔
تھانہ پر پہنچ کر تفتیش میں محمد بخش پہلے تو انکار کرتا رہا مگر جب اسے غلام رسول پتافی سے ملوایا گیا تو اس نے بتایا کہ واقعی وہ سونا بنا لیتا ہے مگر اس کے لیے جنگلی جڑی بوٹیاں لانی پڑتی ہیں جو صرف ڈیرہ غازی خان کے علاقہ سخی سرورکے پہاڑوں میں ہوتی ہیں۔میں نے SSPصاحب کو ساری بات بتا دی جو بہت خوش ہوئے لیکن ساتھ ہی مجھے ایک خبر بھی سنائی کہ آپکا تبادلہIGصاحب نے ضلع بہاولنگر کر دیا ہے۔میں نے آپکا تبادلہ رکوانے کی بہت کوشش کی ہے مگر IGصاحب نہیں مان رہے۔لغاری صاحبان نے آپکی شکایت کی ہے۔ارشد لغاری سے جو اب MNAہے سے ایک جرائم پیشہ فرد سونا کوش کو چھوڑنے پر تلخ کلامی ہوئی تھی جوکہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔لغاری صاحباََن میرے تبادلے کے لیے متعدد بار کوششیں کرچکے تھے لیکن SSPاور DIGمیرا کوٹ سبزل سے تبادلہ نہیں کررہے تھے۔میں نے بھی SSPصاحب سے کئی دفعہ درخواست کی تھی کہ میرا تبادلہ کسی اور تھانہ پر کردیں لیکن وہ ہمیشہ ایک ہی جملہ دہراتے تھے کہ “مجھ سے گزر کر کوئی تمہارا تبادلہ کرے گا”اور وہی ہوا کہ لغاری صاحبان نے صدر فاروق لغاری سے میری شکایت کی انھوں نے IGصاحب کو کہا اور مجھے ضلع بدر کردیا گیا۔اس طرح میں اپنی سروس میں دوسری دفعہ سیاست دانوں کے ہاتھوں شکار ہوا مگر میرے افسران نے میرا ساتھ نہ دیا۔
اب SSPصاحب کو یہ فکر تھی کہ سوناکیسے بنے گا؟وہ بھی اب کسی دوسرے پولیس آفیسر کے سامنے خود کو عیاں نہیں کرنا چاہتے تھے مجھے سے پوچھا کہ اب یہ کیس کس کو دیا جائے میں نے میاں مقبول کا نام تجویز کیاجو اس وقت SHOبھونگ تعینات تھے ملک صاحب مجھے کہنے لگے کہ اُسے ساری بات اچھی طرح سمجھادینا اور حلف بھی لے لینا کہ وہ یہ بات کسی کو بھی نہیں بتائے گا۔اصل کیمیا گر محمد بخش پتافی ہمارے ہاتھ آچکا تھا لہٰذا غلام رسول پتافی کو SSPکی اجازت کے بعد میں نے رہا کردیا۔محمد بخش کو SHOبھونگ کے حوالے کیا انھیں SSPکی تمام ہدایات بھی پہنچادئیں کیونکہ مجھے فوری طور پر ضلع چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا میری جگہ چوہدری محمد صادق گجرانسپکٹر کی تعیناتی بھی کردی گئی جن کے لغاری خاندان سے بہت اچھے تعلقات تھے۔میں نے بہاولنگر پولیس لائن میں حاضری کرلی اُن دنوں تحسین انور شاہ SSPبہاولنگر ہوا کرتے تھے۔میں نے ایک ہفتے کی رخصت لی کیونکہ میری فیملی رحیم یارخان میں رہائش پذیر تھی اُنھیں بھی شفٹ کرنا تھا دوران سروس سیاست دانوں کی شکایت پر یا افسران کی پسند اور ناپسنددگی پرا س طرح کے تبادلے شدید اذیت کا باعث ہوتے ہیں۔میں رحیم یار خان آیا تو میاں مقبول انسپکٹر سے ملاقات ہوئی اس نے بتایا کہ” دو دن پہلے محمد بخش کو کچھ ملازمین کے ساتھ ہتھکڑی لگا کر سخی سرور بھجوایاگیا تھا تاکہ وہاں سے جنگلی جڑی بوٹیاں لا سکے جڑی بوٹیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ فرار ہوگیا کیونکہ ملازمین کو بالکل علم نہ تھا کہ محمد بخش کی کیا اہمیت ہے اور اسے کس لیے بھجوایا گیا ہے ملازمین کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے پتافی ہتھکڑی سمیت بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔SSPصاحب بھی مجھسے شدید ناراض ہیں “۔۔۔میں بھی ڈر کے مارے SSPصاحب سے ملنے نہ گیا۔
ویسے بھی میں نے دوران ملازمت میں نوٹ کیا کہ ان افسران سے جتنا دور رہا جائے اتنا بہتر ہے ان کی اپنی اپنی ترجحات ہوتی ہیں بطور ASPان کا رویہ اور ہوتا ہے جوں جوں ان کے عہدہ میں اضافہ ہوتا ہے ان کا رویہ برُا ہوتا جاتا ہے۔راجہ محفوظ اور راجہ حمید سے میری بعد میں بھی ملاقاتیں ہوتیں رہیں۔وہ بھی مجھ سے اکثر شکوہ کرتے تھے کہ میں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور میاں مقبول کو محمد بخش پتافی کی اہمیت کے بارے میں مکمل بریف نہ کیا اور یوں وہ سونا بنانے میں ناکام ہوگئے۔۔۔۔۔۔میری اپنی ذاتی رائے اس واقعہ کے بارے میں یہ ہے کہ غلام رسول پتافی اور محمد بخش پتافی لوگوں سے دھوکہ کیا کرتے تھے سونا بنانے کا لالچ دے کر رقم وصول کیا کرتے تھے۔مجھے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس نے خود سونا بنانے کا دعویٰ کیا ہو میرے بزرگ جو اب وفات پا چکے ہیں سونے کی تلاش میں ہی رہے آج بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جنھیں کیمیاگر یاعرف عام میں “ٹھرکی “کہا جاتا ہے۔کیمیاگری کے اس شوق میں اپنی ساری جائیداد بھی ختم کرلیتے ہیں سونا بناتے بناتے اپنے آخری انجام تک پہنچ جاتے ہیں مگر سونا نہیں بن پاتا۔
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں