پاکستان قائم ہونے کے بعد انہی انگریزوں کے پروردہ ایجنٹو ں نے ہی سب سے پہلے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکائے،کیونکہ یہ انگریز پر ایمان لاچکے تھے،انگریز کی تہذیب و ثقافت اور نظریات ان کے نزدیک حرف آخر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ ”پاپائیت“ یا ”مولائیت“ کا تعلق یورپ(مغرب)سے ہی ہے اسلام کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہیں نہ ہی 1437 سالہ تاریخ میں کہیں کسی موقع پر بھی) (Theocraticحکومت ”مولائیت“قائم ہوئی ہے نہ ہی اسلامی دنیا میں کوئی ”جیکس ڈی مولائے“جیسا شخص پیدا ہوا،بطور ثبوت تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے ذرا اسلامی اقتدار کا جائزہ لیجیے۔
اسلام اور ملائیت(مولائیت)یا ملا ازم:
مکہ کی بے آب و گیاہ سر زمین پر حضرت محمد ﷺ نے انسانیت کو معرفت الٰہی کا درس دیا،وہاں کے ”لبرل“طبقہ نے اس کی مخالفت کی،آپ کو سخت ترین ایذائیں دیں یہاں تک کہ بحکم ربی نبی مہربانﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی، یہودیوں اور مدینہ میں بسنے والے قبائل کے ساتھ معاہدہ ہوا جسے میثاقِ مدینہ کہا جاتا ہے،اس معاہدے کی رو سے نبی
کریمﷺ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی اور یوں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑی،جب آپ کی عمر مبارک 63 برس کو پہنچی تو آپ اپنے رفیقِ اعلیٰ سے جاملے۔۔
نبی مہربان ﷺ کے وصال کے بعد خلفائے راشدین کا دور شروع ہوتا ہے،پہلے خلیفہ راشدحضرت ابوبکر صدیقؓ،دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ،تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنیؓ اور چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا باقاعدہ منتخب ہوئے،کیا یہ لوگ ان حضرات محترم کی خلافت کو ”ملائیت“سمجھتے ہیں؟
اس کے بعد اموی دور شروع ہوتا ہے یہ لبرلز اور سیکولرز کس اموی حکمران کو ”مُلا“سمجھتے ہیں اور کون سے حکمران کے دور میں ”ملائیت“قائم ہوئی ہے،اسی طرح عباسی دور کے کس حکمران نے “Theocratic“حکومت قائم کی؟خلفائے راشدین کے بعد کے دور کو ”ملوکیت“سے تعبیر دینے پر تو اکثر محقیقن،مؤرخین اورعلماو فقہا کا اتفاق ہے لیکن کوئی بھی محقق،مؤرخ یا کوئی بھی ایسا عالم یا فقیہہ بتایا جائے جس نے اس دورکو ”ملائیت“یا ”مولائیت“سے تعبیر کیا ہو۔۔بلکہ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ اموی اور عباسی دور میں جتنا ظلم مذہبی ائمہ کرام پر کیا گیا اور جس طرح شریعت(اسلامی اصولوں) کو ایوان ہائے اقتدار سے بے دخل و پامال کیا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی،کیا یہ لبرل اور سیکولرز سلطنت عثمانیہ(عثمانی خلافت) کو ملائیت سمجھتے ہیں؟کیا برصغیر کے شہنشاہان قطب الدین ایبک،شہاب الدین غوری،شیر شاہ سوری،سلطان محمود غزنوی،ہمایوں،امیر تیمور،شاہ جہاں،اکبر بادشاہ،اورنگزیب عالمگیراور بہادر شاہ ظفر کو ”ملا“سمجھتے ہیں؟اسلامی تاریخ کے1437 سالہ دور میں کسی ایک حکمران کے بارے میں یہ ثبوت فراہم کردیجئیے کہ اس کے دور میں ملائیت تھی؟لیکن یہ یقیناً اس بات کا جواب ہرگز نہیں دے سکیں گے بلکہ آئیں بائیں شائیں کرکے کنی کترانے کی کوشش کریں گے۔
اسلام سے بیزاری، نام مُلا کا:
حقیقت یہ ہے کہ یہ دین بے زار طبقہ جسے صرف اور صرف اسلام سے ہی چڑ ہے اسلام سے بے زاری کا اظہار بے چارے مولوی کو تضحیک اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر کرتا ہے،اس کے پاس کوئی ایسی ٹھوس دلیل ہے ہی نہیں جس کی بنیاد پر وہ حتمی طور پر لوگوں کو قائل کرسکے کہ ’]مولوی“ اور مدرسہ فساد کی جڑ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے،قصور ان کا نہیں،ان کی تربیت کا ہے،جن ہاتھوں میں ہوئی ہے وہ ہاتھ اسلام کے مخالف اور جن عناصر کی زبان میں یہ لوگ گفتگو کرتے ہیں ان زبانوں سے ہمیشہ ہی اسلام کے خلاف مغلظات ہی برآمد ہوئے ہیں۔ان حضرات کا بار بار یہ اصرار اور پروپیگنڈا کہ مذہب نے قومی سیاست کو پراگندا کیا ہے اور مولوی اورمدرسہ ترقی کی راہ میں نا صرف رکاوٹ ہیں بلکہ ان کی وجہ سے دہشت گردی،انتہا پسندی اور شدت پسندی کو فروغ ملا،منشیات اور کلاشکوف کلچر عام ہوا اور یہ کہ خدانخواستہ یہ اقتدار میں آگئے تو نجانے ملک و قوم کا کیا حشر کردیں،دودھ اور شہد کی نہریں جو اب تک بہتی چلی آرہی ہیں ان کے آنے سے بند ہوجائیں گی اور۔۔۔ان حضرات کے اس پروپیگنڈا کو مدنظر رکھتے ہوئے ذرا جائزہ لیا جائے کہ پاکستان میں کب اور کون سی ملائیت(مولائیت) قائم ہوئی کب مُلا کو اقتدار ملا اور اس نے کیا حشر برپا کیا؟
تاریخ پاکستان کا مطالعہ کیا جائے تو خوفناک حقائق سامنے آتے ہیں،مصور پاکستان حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ نے جس اسلامی پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور حضرت قائداعظمؒ نے جس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا تھا،مسلمانان ِ ہند نے جس وطن عزیز کے حصول کے لئے اپنی جانوں،مالوں اور عصمتوں کا نذرانہ پیش کیا تھا،اس تحریک میں ہماری قوم و وطن کے یہ آج کے ہمدرد،بہی خواہ اور قومی درد سے مرے جانے والے حضرات کہیں نظر نہیں آتے،یہ اگر کہیں نظر آتے ہیں تو مخالف صفوں میں دشمن کو کمک پہنچاتے ہوئے،دشمن کے کاندھے سے کاندھا اور قدم سے قدم ملاکر تحریک پاکستان کی عظیم جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کاوشوں میں مصروف عمل،انگریز کا دم بھرتے ہوئے اور اپنی وفاداریوں کے عوض انگریز سے بطور انعام جاگیریں اور عہدے و خطابات لیتے ہوئے،کہیں کانگریس کے غلام بے دام تو کہیں تحریک پاکستان کے مقابلے میں اپنی علیحدہ ڈفلی بجاتے ہوئے،کہیں یونینسٹ پارٹی کی شکل میں تو کہیں کسی اور نام اور روپ سے مسلمانوں کو انکی اصل منزل سے بھٹکاتے ہوئے،اور جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے ایک ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا جو ابھی تک جاری ہے،ایک ایسے فساد کی بنیاد رکھی جسکا اختتام آج تک نہیں ہوا،ایک ایسا تماشا شروع کیا جس کا اینڈ(End) ابھی تک نہیں آیا.۔۔۔
حضرت قائداعظمؒ کے سانحہ ارتحال کے بعد اور مجاہد ملت خان لیاقت علی خانؒ کی شہادت کے بعد گویا انکے پوبارہ ہوگئے،گورنرز اور وزرائے اعظم کی فہرست اٹھالیں، چاہے مشرقی پاکستان ہو یا مغربی پاکستان،اس فہرست میں ایک بھی مُلا نظر نہیں آئے گا،کیا یہ حضرات میرے اس سوال کا جواب مرحمت کرنا پسند فرمائیں گے کہ اگر مولوی،مدرسہ اور مذہب یعنی دین اسلام سارے فساد کی جڑ ہے تو ذرا وضاحت فرمائیے گا کہ گونر جنرل غلام محمد،سکندر مرزا،خواجہ ناظم الدین،ٹکا خان،عبد المالک،فیروز خان نون سمیت کیا یہ سب مولوی تھے؟ان حضرات میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس وطن عزیز کو سرزمین بے آئین رکھا،اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے سازشیں کیں اور عوامی مینڈیٹ کو اپنے پاؤں تلے روندا ڈالا؟کیا جنرل ایوب خان اور جنرل یحیٰ خان مولوی تھے؟کیا شیخ مجیب الرحمن اور جناب ذوالفقار علی بھٹوصاحب مولوی تھے؟کیا جنرل ضیا الحق اور محترمہ بے نظیر بھٹو،غلام مصطفیٰ جتوئی،غلام اسحق خان،محمد خان جونیجو،رفیق تارڑ،جنرل پرویز مشرف،فاروق لغاری،شوکت عزیز،چوہدری شجاعت حسین،میرظفر اللہ خان جمالی اور نواز شریف صاحب مولوی تھے؟یہ کون سے دینی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے جنہوں نے اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کردیہیں،جنہوں نے کسی نہ کسی طرح اس ملک کے نظریاتی تشخص کا بیڑا غرق کیا،قرضے لئے،قومی معیشت کا تیا پانچہ کیا،جنہوں نے اپنی ناکام خارجہ و داخلہ پالیسی کی وجہ سے ملک کو بیرونی طاقتوں کے لئے آسان چراگاہ بنا ڈالا!ان حضرات میں سے ہر ایک نے بلاشبہ کچھ اچھے کام بھی کیے جو قابل تحسین ہیں لیکن مجموعی طور پر سب ایک ہی ایجنڈے پر کاربند رہے اور آج بھی ہیں اور وہ ایجنڈا وہی ہے جس کے لئے ہمارے یہ لبرل حضرات آج مرے جارہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انہی حضرات کے بھائی بندوں نے اس ملک کا بیڑا غرق کیا اور ان کا ملبہ یہ حضرات اب بے چارے مولوی پر ڈال کر اپنے اس کام کو جاری رکھنے کے جتن کررہے ہیں۔ان کی علمی حالت کا یہ حال ہے کہ ان بے چاروں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ جو مطالبات یہ کررہے ہیں ان کا مطلب کیا ہے؟جو الفاظ ان کے منہ میں ڈالے گئے ہیں ان کا مقصدکیا ہے،طوطے (توتے) کی طرح رٹے ہوئے جملے ادا کرکے یہ خود کو سارے جہان کا عالم اور فاضل سمجھتے ہیں۔جب میں کسی لبرل،سیکولر یا دین بیزار شخص کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ”سیاست اور دین دو الگ الگ چیزیں ہیں“تو یقین جانئیے میں اپنی ہنسی نہیں روک سکتا،قہقے لگانے کو جی چاہتا ہے،انکی علمی حالت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔یہ مولوی پر”بے چارہ دورکعت کا امام“ کہ کر پھبتی کستے ہیں لیکن انکی اپنی علمی قابلیت انہیں ”دو کوڑی“ کابنادیتی ہے۔آئیے ذرا جائزہ
لیں کہ دین اور سیاست کیا چیز ہے اور کیا یہ دونوں جدا جدا یعنی الگ الگ ہیں؟۔۔۔۔۔(جاری ہے)
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں