آج ایک دوست جو خود بھی فیس بک پر لکھتے ہیں اور انتہائی سادہ اسلوب میں روز مرہ پیش آمدہ واقعات بیان کر کے اخلاقی اسباق پر توجہ دلواتے ہیں، ان کا میسج آیا کہ "احسن صاحب ماں پر تو بہت کچھ لکھا جاتا ہے باپ پر بھی دینی و معاشرتی نکتہ نگاہ سے لکھیں۔" اب میں خود کو اتنا عالم فاضل نہیں سمجھتا کہ اس موضوع پر دینی و معاشرتی نکتہ نگاہ سے کچھ لکھ سکوں, لیکن پھر اچانک ذہن اپنے والد محترم کی طرف چلا گیا جنہیں ہم سے بچھڑے تیرہ برس سے زائد ہو گئے ہیں۔ ان کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات فلم کی طرح ذہن پر چلنے لگے اور آنکھیں بھیگتی چلی گئیں, آپ دوستوں کیساتھ بھی یہ واقعات بانٹ رہا ہوں کہ باپ تو سارے ہی شجر سایہ دار کی طرح ہوتے ہیں اور ہر ایک والد اپنی اولاد کیلیے سپر مین کی حیثیت رکھتا ہے.
والد صاحب کا نام تو شیخ سرفراز احمد تھا لیکن ماں باپ نےساتھ میں پیار کا نام راجا رکھ چھوڑا، پھر یہی عرفیت انکی پہچان بن گئی۔ گریجویشن کے بعد دادا نے جو کہ خود بھی ریلوے میں ملازم تھے، راجا صاحب کو ریلوے میں بطور بکنگ کلرک بھرتی کروا دیا۔ راجا صاحب نے ساتھ میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایل ایل بی کیساتھ لیبر لاء اور ٹیکسیشن لاء کا ڈپلو مہ بھی مکمل کرلیا۔ جلد ہی شادی بھی ہو گئی۔ جوانی اور لا ابالی پن عروج پر تھا، بکنگ کلرکی میں اوپر کی آمدنی سے بھی خوب مستفید ہوتے تھے۔ تب اللہ نے انھیں میری صورت میں پہلی اولاد سے نوازا تو والدہ نے راجا صاحب کو کہا اب آپ باپ بن چکے ہیں، آپکی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی پرورش رزق حلال سے کریں۔ اللہ کا شکر ادا کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ حرام کمائی سے توبہ کرلیں.بیٹے کی پیدائش کی خوشی تھی۔ بات دل کو لگی سچے دل سے توبہ کرلی۔ اللہ نے بھی توبہ اسطرح قبول کی کہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کا محکمہ جو اس وقت نیا نیا شروع ہوا تھا، اس میں والد صاحب کی پوسٹنگ بطور انکوائری آفیسر ڈائریکٹ سولہویں گر یڈ میں ہو گئی۔ وہ نوکری جس میں کام ہی محکمے کے تمام قانونی معاملات کی نگرانی و کر پشن وغیرہ کے کیسز کی انکوائری تھا، رشوت کی بڑی بڑی پیشکشوں کو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے تھے۔ اللہ سے کیا اپنا وعدہ انتہائی ایمانداری سے نبھایا۔ آج بھی میں اور میرے دوسرے بہن بھائی رزق حلال کھلانے پر اپنے والد صاحب کے سب سے زیادہ ممنون ہیں۔
جب والد صاحب کے ہمعصر بڑے مکانات بنا رہے تھے، ہم تین مرلہ کے نیم پختہ سے مکان میں خوش تھے.جب موسم کی طبعیت ذرا بگڑ جاتی اور گرج چمک کر ساتھ بارش شروع ہوجاتی تو ہمارے مکان اور راجاصاحب دونوں کا گریہ دیکھنے کے قابل ہوتا، ہمیں گود میں لیکر رو روکر تلاوت کلام پاک کرتے جاتے اور اللہ سے مکان اور اپنے بچوں کی سلامتی کی دعا بھی کرتے رہتے۔ ایک رات اسی طرح کے حالات میں جب والدہ نے توجہ لکڑی کے شہتیر کی چرچراہٹ پر دلوائی تو چشم زدن میں راجا صاحب بچوں کو اٹھا کر فوراً صحن میں آگئے۔ والدہ نے بھی فوراً ان کی پیروی کی۔ بس ابھی ساری فیملی کا دوسرا پاؤں صحن میں پڑنا تھا کہ کمرے کی چھت دھڑام سے گر پڑی، آج بھی جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ گڑ گڑا کر اللہ کے حضور کی گئی دعاؤں پر یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے.
ایک دفعہ ہماری گلی میں ایک کتا جس کا گلا کسی بیماری کی وجہ سے کٹا ہوا تھا آگیا، لگتا یہ تھا کہ کتنے دنوں سے بھوکا ہے، راجا صاحب نے دیکھا تو فوراً گھر سے کچھ کھانے کی چیز نکال کر اسے دی تو کتے نے فوراً چٹ کر لی۔ بس کھانا کھانےکے بعد کتے نے فیصلہ کرلیا کہ اگر جینا ہے تو اسی گھر کی دہلیز پر اور اگر مرنا ہے تو بھی اسی گھر کی دہلیز پر۔ اب والدہ اور ہم بچے اس کتےسے خاصی گھن کھا رہے تھے لیکن راجا صاحب کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ انھوں نے کتے کو دھتکارنے سے انکار کر دیا اور جا کر جانوروں کے ڈاکٹر کو لے آئے، ڈاکٹر نے کتے کی مرہم پٹی کی، ٹیکا وغیرہ لگایا اور گلے پر لگانے کیلیے مزید دوائی بھی دی۔ اب راجا صاحب ہر روز کتے کے گلے پر چھوٹے چچا کی مدد سے دوائی لگانے لگے۔ ان کی مسیحائی کا اثر تھا کہ جلد ہی کتا بھلا چنگا ہو گیا۔
ایک دفعہ راجا صاحب ہر روز والدہ کو کہنے لگے کہ مجھے ایک روٹی زیادہ بنا کر دیا کریں۔ اب راجا صاحب وہ روٹی، ایک اپنے حصے کی روٹی اور کچھ سالن باندھ کر باہر نکل جا تے اور کچھ دیر بعد واپس آتے۔ والدہ کے استفسار پر بھی بات ٹال جاتے۔ کچھ دنوں بعد میں بھی راجا صاحب کے ساتھ ضد کر کے ساتھ چلا گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ نچلے دھڑ سے مفلوج ایک شخص سایہ والی جگہ پڑا ہے اور راجا صاحب اس کا حال چال پوچھنے کے بعد اسے کھانا کھلا رہےہیں۔ مزید پتہ چلا کہ اس شخص کو اس کی بیماری کی وجہ سے اس کےرشتہ دار، مرنے کے لیے سڑک کے کنارے پھینک گئےتھے۔ راجہ صاحب نے اس شخص کو نہلایا دھلایا، اسے اپنے کپڑے پہنائے، دھوپ کی بجائے اسے درخت کے نیچے چھاؤں میں لٹایا۔ اب روز اسےکھانا کھلاتے ہیں. یہ سلسلہ کچھ دن چلتا رہا پھر ایک دن اس کے لواحقین خود ہی شرم کھا کر اس شخص کو اپنے ساتھ لے گئے۔
بڑی عید کے موقع پر راجا صاحب کی ایک اور روایت تھی، قربانی کے گوشت کا قیمہ بنواتے اور والدہ سے اسکے بڑی تعداد میں کباب بنواتے، ساتھ میں نان لیتے اور پھر مجھے لیکر سڑک کنارے جو بھی بھکاری یا نادار نظر آتا اسے نان اور کباب کھانے کو دیتے۔
پھر جب میری دادی اور دادا اپنے بڑھاپے میں مختلف عوارض کی وجہ سےمعذوری کا شکار ہوئے تو ان کی بھی خوب خدمت کی۔ والدین کو نہلانا، رفع حاجت کے لیے اٹھا کر پاٹ والی کرسی پر بٹھانا، اپنے ہاتھ سےکھانا کھلانا انکا معمول رہا۔
واقعات تو روانی کیساتھ یاد آ رہے ہیں لیکن مضمون کی طوالت کا احساس ہے۔ راجا صاحب جب تریپن برس کے تھے تو ایک دن انگلینڈ سے ایک انتہائی اندوہناک خبر آئی کہ میرے تایا کا جواں سال ہونہار بیٹا اچانک ہارٹ اٹیک سےاپنےخالق حقیقی کو جا ملا ہے۔ یہ خبر گو یا ان پر بم بن کر گری، جواں سال بھتیجے کی موت کا شدید غم لیا۔ بھتیجے کی موت کے ایک دو دن بعد ہی کہنے لگے کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں ایک تالاب کے کنارے بیٹھا ہوں اور اس تالاب سے ایک سفید کبوتر نکل کراڑا اور دور فضاؤں میں گم ہو گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ میرا بھی بلاوا آگیا ہے۔ میں نے بھی اب اللہ کے پاس چلے جانا ہے۔ پھر وہ ہماری والدہ کو لیکر دوسرے شہر اپنے بہن بھائیوں سے ملنے چلے گئے اور سب سے یہی کہا کہ میں آپ سے آخری ملاقات کرنے آیا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ میں چند دن کا مہمان ہوں۔ سب نے یہی کہا کہ آپ نے بھتیجے کی موت کا اثر لیا ہے، ایسا نہ سوچیں لیکن کہنےلگے مجھے میرے رب کی طرف سے بلاوا آگیا ہے۔ میری یہ اور یہ وصیت ہے، ساتھ میں یہاں تک بتا دیا کہ میں فلاں جگہ اپنے اور اپنی بیوی کے حج کیلیے پیسے جمع کر کے رکھ رہا ہوں، اس سے میری تجہیز و تکفین کا انتظام کیجیے گا۔
رشتے داروں سے مل کر راجا صاحب نے جونہی واپسی پر اپنے گھر کی دہلیز پر قدم رکھا تو وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ میں تو گھر نہیں تھا، دوسرے بھائی محلے والوں کے ساتھ مل کر والدصاحب کو ہسپتال لے گئے۔ ہسپتال والوں نے بتا یا کہ یہ تو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اپنے خَالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون۔

راجا صاحب میں بھی تمام انسانوں کی طرح خامیاں ہو نگی لیکن جو چیز انھیں دل کا راجا بناتی تھی، وہ تھا ان کی نظر میں مخلوق خدا سے محبت اور خد مت کا جذبہ۔ آپ سب ساتھیوں سے بھی ان کے لئے دعائے مغفرت کی درخواست ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں