ہم غزل گو ۔۔ واقعی زندہ ہیں کیا؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

روح تھی شاعر کی مجھ میں

اور میں سُکڑا ہوا، سِمٹا ہوا، اک جسم میں محبوس تھا، جو

اغلباً اک مے گسار و شکوہ سنج و نالہ کش کے

واسطے پیدا ہوا تھا

شعر کہنے کی صلاحیت تو مالک سے

ودیعت تھی ، مگر

الفاظ، تشبیہات کے گہرے سمندر میں

فقط کچھ ہی جزیروں کی طرح تھے

جن پہ شاید میں اُتر سکتا تھا، یعنی ۔۔۔۔۔

استعارے

گریہ زاری، سینہ کوبہ

عزلت و بے چارگی کے

رونے دھونے کے محاکاتی کنائے

خوش دلی سےبغض، ہنسنے اور ہنسانے سے کدورت

شستگی، شائستگی سے دور رہنے کے معمائی اشارے

صنعت توشیہہ میں بھی

دوستوں سے بے نیازی کے فسانے

کاٹ، ترچھا پن، نمائش، خردہ گیری کے

عزیر الفہم، ژولیدہ مرادف!

ایسے ہی حالات تھے ، جب

مجھ کو یہ احساس سا ہونے لگا تھا ۔۔۔

روح جو شاعر کی تھی مجھ میں سکڑتی جا رہی ہے

میں فقط بے روح اک پنجر سا بنتا جا رہا ہوں

کیا غزل میں ما سوا آہ و بکا کے

اور بھی کچھ ہے ۔۔۔

نہیں، فی الحال توبس ہم کو پرکھوں

سے یہی کچھ ہی ملا ہے

اس پہ ہی شاکر رہو، اے نکتہ چیں، ناراض شاعر!

پوچھتا ہوں

کیا یہی ہے شعر کہنے کی ودیعت کا جنازہ

جس کو ہم سب

اپنے کندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں

julia rana solicitors london

اور پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم زندہ ہیں اب تک؟

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply