• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یہاں ناپنے،تولنے،جانچنے اور پرکھنے کے پیمانے ہی نہیں ہیں۔۔اسد مفتی

یہاں ناپنے،تولنے،جانچنے اور پرکھنے کے پیمانے ہی نہیں ہیں۔۔اسد مفتی

سائنسدانوں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کا طوفان اور پھیلتی آلودگی کے باعث جنگوں کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔جرمنی کے پروفیسر ولیم ہاگن نے کہا ہے کہ ہم تیل پر جنگیں لڑ چکے ہیں،یہ ہماری زندگی ہی میں لڑی گئیں،اس طرح پانی پر جنگیں بھی ممکن ہیں،یہ ہماری زندگی ہی میں ہوں یا آئندہ نسل اس کا خمیازہ بھگتے۔

یہ بات اس رپورٹ میں کہی گئی ہے،جو ورلڈ واٹر ویک،کانفرنس کے ختم ہونے پر کتاب کی صورت شائع کی گئی ہے۔کتاب کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متمول ممالک میں لاعلمی اور اطمینان بخش صورتِ حال نظر آرہی ہے،امریکہ کے پروفیسر نیچرل ریسورسزمچل نے کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ نا آسودہ علاقوں کو خشن سالی،وبائی امراض اور پانی کے حقوق پر متوقع جنگوں سے کون روکے گا،اور اس حقیقت سے کون جھنجھوڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء ان ممالک میں شامل ہے،جہاں ان جنگوں کا خطرہ ہے،انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوشن نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ موجودہ روش پر چلنے کا مطلب مزید تصادم کا خطرہ ہے،کہ دنیا بھر کی نہائیت تیزی سے بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی شرح کے باعث پانی کی سپلائی پر دباؤ بڑ ھ رہا ہے،2025میں ہم مزید دوارب افراد کو پانی فراہم کررہے ہوں گے،جن میں سے 95فیصد شہری آبادی اور علاقوں کے رہائش پذیر افراد ہوں گے۔

ایک اندازے کے مطابق واٹر سیکٹر میں ہر سال ۸۰ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوتی ہے،مگر پانی کی ضرورت اہلِ دنیا کو اس سے دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔
میں نے اس سے پہلے بھی کئی بار اپنے کالموں میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان 2010تک پانی کی قلت والا ملک بن جائے گا،پاکستان میں فی کس پانی کی فراہمی جو 1951 میں 5650مکعب میٹر تھی،1999میں کم ہوکر 1450مکعب میٹر رہ گئی ہے،جبکہ آئندہ چند برسوں میں یہ مزید کم ہوکر 1030مکعب میٹر رہ جائے گی،اور ملک میں موجود زیرِ زمین پانی کی سطح قریباً 50فٹ مزید نیچے چلی جائے گی،جس سے پاکستان پانی کی قلت والا شاد باد ملک بن جائے گا۔

ایک حالیہ ڈچ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 70 فیصد پانی آبپاشی جبکہ23فیصد صنعتی ضروریات اور 8فیصد گھریلو ضروریات میں بھی26مکعب فیصد اضافہ ہوچکا ہے،جبکہ تازہ پانی کی مانگ میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے،بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنیکے لیے زرعی زمین اور زرعی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے،اقوامِ متحدہ کے منشور کی ایک شِق کے مطابق دنیا کے ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ حکومت ہر روز اسے کم از کم 5 لیٹر پانی پینے کے لیے،5لیٹر کھانا پکانے کے لیے،45لیٹر نہانے کے لیے،اور 25لیٹر دھونے اور صفائی کے لیے فراہم کرے،اس کے علاوہ دیگر ضروریات کی تکمیل کے لیے 40لیٹر پانی حاصل کرنا ہر شہری کا حق ہے،گویا 120لیٹرہر روز،ہر انسان کا بنیادی حق اور ضرورت ہے۔اور ادھر کشور حسین شاد باد کا یہ حال ہے کہ وہاں پانی کے حصول کے ذرائع دن بدن کم ہوتے ہوئے اب اپنے آخری کناروں کو چھو رہے ہیں۔

ان ذرائع سے پاک سر زمین زیادہ سے زیادہ اوسطاً سالانہ 144ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل کرسکتا ہے۔جبکہ پاکستان میں پانی کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے۔
زراعت کے شعبے کے علاوہ بھی پاکستان میں دوسرے شعبوں میں پانی کی مانگ بڑھ رہی ہے،حکومتِ پاکستان وزارتِ پانی و بجلی اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے اشتراک سے پاکستان میں پانی کے شعبے ،پاکستان کو پانی کی حکمتِ عملی پر کرائی گئی تازہ ترین سٹڈی میں کہا گیا ہے کہ پانی کے سنگین بحران کا سامنا ہے،جس کے خاتمے کے لیے اسے سالانہ 3500ملین ڈالر کی پانی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی،سٹڈی کے مطابق شہریوں کو مختلف ضروریات کے لیے جس میں پینے کا پانی بھی شامل ہے30.16ملین ایکڑ فٹ پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ جو کہ ملک میں استعمال ہونے والے کُل پانی کا3فیصد ہے۔

2019کے وسط میں شائع ہونے والی عالمی آبادی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اپنی”پہنچ” سے زیادہ وسائل استعمال کررہے ہیں۔اور اسے روکنے میں تاخیر کی گئی تو آگے چل کر بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2050تک 4.5ارب افراد جو دنیا کی آبادی کا 42فیصد حصہ ہوں گے،وہ ایسے ملکوں کے باشندے ہوں گے،جن کی فی کس پچاس لیٹر پانی کی بنیادی ضرورت پوری نہ ہوسکے گی۔(جبکہ دنیا کے ہر شہری کا ۱۲۰ لیٹر پانی حاصل کرنا بنیادی حق اور ضرورت ہے)۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج دنیا کی آبادی گزشتہ چالیس برسوں میں دوگنی ہوک 7ارب تیس کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔جو آئندہ پچاس برسوں میں 9 ارب تیس کروڑ ہوجائے گی۔
آبادی کا یہ اضافہ ترقی پذیر ملکوں میں ہوگا،جو گزشتہ پچاس برسوں سے ترقی پذیری ہی کی صف میں چلے آرہے ہیں،اور ان ملکوں میں وسائل پر پہلے ہی ضرورت سے زیادہ دباؤ ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں پانی کے ذخائر کو تباہ کُن طریقے سے آلودہ کیا جارہا ہے،دستیاب سالانہ پانی فی الحال سالانہ 45فیصداستعمال ہورہا ہے۔اور اس میں سے تقریباً 2تہائی زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہورہا ہے،2025تک یہ کھپت 70فیصد ہوجائے گی۔اور اگر ترقی پذیر ملکوں میں کھپت ترقی یافتہ ملکوں کی سطح پر پہنچ گئی تو کھپت90 فیصد ہوجائے گی۔بہت سے ملکوں میں پانی کا استعمال پہلے ہی غلط اور بُرے طریقے سے ہورہا ہے،چین،لاطینی امریکہ اور جنوبی ایشیا (پاک و ہند بنگلہ دیش) کے کچھ ملکوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح ہر اسل ایک میٹر سے زیادہ نیچے اُتر جاتی ہے۔اس کے تدارک کے لیے ملکِ عزیز کی فوجی یاسیاسی کسی حکومت نے کچھ نہیں کیا اور میرے حساب سے زیرِ زمین پانی کی سطح کا دن بدن نیچے اترتے جانا دراصل افراد کا زیرزمین چلے جانا ہے۔کہ پانی صرف پانی نہیں ہے،بہت سے لوگ اسے امرت اور آبِ حیات بھی کہتے ہیں۔
ہم نے پوچھا کہ کیا پلاؤ گے؟
اُن کی آنکھوں میں آگئے آنسو!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply