کہا تھا اس نےکہ پیدائش و فنا ، دونوں
رواں ہیں اپنے مداروں میں آفرینش سے
مدار ِ زیست ہے اک دائرے کا قرۃ العین
فنا بھی اس کی ہی گردش میں ہے شریک ِ سفر
یہ دونوں اپنےمداروں کے چرخ و پیچ میں جب
ذرا قریب سےگزریں تو ان کی کِشش ثقل
براہ راست تصادم میں ان کو کھینچتی ہے
نتیجہ؟ قمع و تخریب، نیستی، اتلاف
شکست و ریخت، تباہی، قلع و بیخ کنی
کہا تھا اس نے کہ آفاق کی یہ قطع و برید
حساب و ہیئت افلاک کا ہے مرقومہ
کہا تھا اس نے یہ ۔۔۔ لیکن، کہا تھا اور بھی کچھ
کہ آنے والے ہی برسوں میں عین ممکن ہے
کہ آدمی کے مقدر میں ہو یہ بربادی
حساب ِ ہیت ِ افلاک میں رقم ہے یہی
کہ اک قیامت ِ صغریٰ ہے اپنے عین قریب۔
کہا گیا ہے اسی سال یا کہ اگلےبرس
یہ دنیا خود ہی تباہی گلے لگائے گی۔
یہ سیل ِ آب، سنامی، یہ سائیکلون، یہ قحط
ری ایکٹروں کا یہ اسقاط، جوہری اخراج
یہ خانہ جنگی، بغاوت، یہ افتراق، خلل
یہ کشت و خون، مزائل، ہوائی یلغاریں
یہ زلزلے یہ تباہی، اجڑنا شہروں کا
یہ ٹوٹ پھوٹ، یہ آتش زنی، یہ برق ِ قضا
ہر ایک لمحہ ہےبدفال بد شگون گھڑی
کسی کو علم نہیں کیوں ہیں سارے ہنگامے

یہ انتباہ ہے ، تہدید ہے کہ نعرہء جنگ؟
نشانیاں تو نظر آ رہی ہیں، اب دیکھیں
کہ کب قِیامت ٰصغریٰ سے پالا پڑتا ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں