اس سے پہلے کہ میں اپنی بات شروع کروں،یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب تک پاکستان کے چھوٹے صوبوں اور بڑے صوبوں یعنی پنجاب کے درمیاں ایسا رشتہ نہیں پیدا کرتے،ایسے تعلقات پیدا نہیں کرتے،کہ جس سے کسی کو ایسا احساس نہ ہو کہ وہ کسی مجبوری کے تحت اکٹھا رہ رہا ہے،اور پاکستان سے ان کی وابستگی ایسی چیزنہیں،جو زبردستی ان پر ٹھونسی گئی ہے،تو پاکستان پُرسکون نہیں رہ سکتا،نہ ہم چین سے رہ سکتے ہیں۔اور نہ اس خطہ میں امن و امان پیدا ہوسکتا ہے۔اور نہ ہی ہم داخلی طور پر خوشگوار تعلقات استوار کرسکتے ہیں۔جب تک ہم اپنے گھر کے حالات درست نہیں کرتے،اس وقت تک ہمیں واضح کامیابی نہیں مل سکتی۔
آج یہ بات “نعرہ ء حق “بن گئی ہے۔کہ پنجاب کو “ظالم”کہا جائے۔استحصالی صوبہ کہا جائے،اپنے کسی جذبے کی تسکین کا سامان مہیا کرے۔سچ ہے،پنجاب ظالم نے ظلم کیا ہے۔تو اس نے لمبی تان کر سونے میں عافیت جانی،پنجاب ظالم ہے کہ سندھیوں کے پاس سرکاری و غیر سرکاری سطح پر زبان و ثقافت کی ترقی و ترویج کے لیے رسائل و اخبارات ہیں۔سرحد کے پاس اپنے نصاب میں اپنی شناخت کے لیے اپنی زبان کی سلامتی کے لیے کتب و رسائل اور اخبارات موجود ہیں۔پنجاب “ظالم ہے”کہ اس نے اپنی زبان کو کھو دیا۔تہذیب گم کردی،ثقافتی بے چہرگی کو قبول کرلیا،اور پھر بھی ٹھنڈ ا ٹھار ہے۔پنجاب اور پنجابی کا اس سلسلے میں اٹھا ہر قدم اسے غدار ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔پنجاب “ظالم”ہے،کہ اس نے کسی بھی غیر منتخب اقتدار کو قبول نہیں کیا۔پنجاب “ظالم “ہے،کہ ون یونٹ کے پورے عرصے میں اسے اپنی آبادی اور آمدنی کے تناسب سے ترقیاتی اقوام میں کم حصہ ملتا رہا،یہاں تک کہ دوسرے علاقوں کو ترقی کے لیے اس کے وسائل استعمال کیے،پنجاب ظالم ہے کہ۔۔۔
یہی اس غریب اور بے چہرہ پنجاب کا اصل گناہ ہے،جسے پاکستان پیپلز پارٹی ان دنوں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے، بلاول بھٹو جیسے لوگ اب انتہا پسندی کی بات کرتے ہیں،اور آج کل ایک سزا یہ تجویز کی گئی ہے کہ اس کے کم از کم تین ٹکڑے سرائیکی،پوٹھوہاری اور پنجابی کے نام پر کردیے جائیں اور بقول شخصے۔۔
اُن کے جوہر بھی کُھلے اپنی حقیقت بھی کھلی
پنجاب پر مسلسل یلغار کے سبب پی پی پی کے بلاول بھٹو تو کیا بہت سے بزعم خود ترقی پسند پنجابی بیرون پنجاب سے لگنے والے ہر جھوٹے سچے الزام کا اسی طرح ساتھ دینے لگتے ہیں،جس طرح کہا جاتا ہے کہ پنجابی ہر آنے والے حملہ آور کی پذیرائی کے لیے تیار ہوتے اور اس کے ساتھ ہولیتے،جھوٹ اور سچ نتارنے کی توفیق خدا نے ان پنجابیوں کو عنائیت نہیں کی،مگر پھر بھی وہ بڑے فراغ دل،لبرل اور ترقی پسند کہلاتے ہیں۔ایک وہ پنجابی کل تک جو پنجاب کے ہر بڑے فعل میں برابر کے شریک تھے،بلکہ اس بڑے افعال کی ترغیب دینے اور اس پر عمل درآمد کروانے میں پیش پیش تھے،آج یہ پنجابی اس احساسِ جرم میں حصے دار بننے کے بجائے گناہوں کا سارا پشتارا مرکزی پنجاب کے چند اضلاع کے سر پر ڈال کر بری الزمہ ہونا چاہتے ہیں،اور اپنے پنجابی ہونے سے بھی انکاری ہیں۔
یہی پنجابی بزعم خود دوسرے صوبوں کے ترقی پسند سیاسی گروہوں سے مل کر یہ بھی کہتے ہیں کہ پنجاب میں تین قومیتیں ہیں،پوٹھوہاری جس سے فوج آتی ہے،اور پشتون اور ہندکو بولنے والے تو خیر ہیں ہی پنجاب سے باہر تو پھر ان کی “فوج”کے گناہوں کا بوجھ مرکزی پنجاب پر ڈالنے کا جواز کا اخلاقی جواز کسی کے پاس ہے؟اگر سرائیکی قومیت،پنجابی قومیت سے الگ ہے تو خضرحیات ٹوانہ سے لے کر موجودہ عثمان بزدار کی سیاسی قیادت کے جرائم مرکزی پنجاب کے کھاتے میں ڈالنے کا اخلاقی جواز کیا ہے۔اور یہ بات ذہنوں سے ابھی محو نہیں ہوئی کہ مرکزی پنجاب کی بے چہرہ اور بے نام اکثریت نے نظام میں تبدیلی لانے کے لیے اسلام اور علاقائیت کے سبھی نعروں کو مسترد کردیا تھا،یہ پنجابی بولنے والے مرکزی پنجاب کا کردار تھا۔جس نے صدیوں پرانی مستند سیاسی ترکیبات میں رخنہ ڈال دیا اور پاکستان کے اندر گنتی کے خاندانوں کے سیاسی حلقے میں ایک شگاف ڈال دیا جس سے تمام قلعدار پریشان ہوگئے۔
میرے حساب سے سرائیکی اور پوٹھوہاری کی تقسیم سے حالات بدلنے کے بجائے پنجاب میں بھی یوگوسلاویہ جیسی داغ بیل ضرور ڈال دی جائے گی۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں،جہاں وسائل نہ ہوں وہاں مسائل پیدا ہوجاتے ہیں،اور یہ کہ الجھنیں اور دشواریاں اقتصادیات کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔
میرے حساب سے پاکستانی عوام کی گردنوں پہ سوار جاگیردار پیرانِ تسمہ ء پاکی تار پھینکیں،یہ معاملات اپنی موت آپ مرجائیں گے۔
اصل مسئلہ پنجاب کو اس کی غلامی سے نکالنا ہے،اگر کسی قوم سے اس کی زبان چھین لی جائے تو غلام بن جاتی ہے،اور غلام کو جو بھی گالی دی جائے،وہ الحمدللہ شکر خیال کرکے تسلیم کرلیتا ہے،غلام خود کو گالی ہی نہیں دیتا،اپنے منہ پر طمانچے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتا،غلام پنجاب کا پاکستان بننے کے بعد کوئی ترجمان اور پُرسان ِ حال پیدا نہیں ہوا،جسکی وجہ سے بلاول جیسے بے سُرے لوگوں نے راگ الاپنے شروع کردیے ہیں،جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں،اس سیاسی مشاعرے میں وہ پنجاب پیپلز پارٹی کے وہ لوگ بھی شامل ہیں،جن کو پنجابی میں ماہ و سال کے نام بھی نہیں آتے،ایسی صورتِ حال میں پنجابی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا مطالبہ اور نپجاب و پنجابی کی الجھی پڑی بے چہرہ شناخت کو نمایاں کرنے کی جائز خواہشوں اور کوششوں کا پی پی پی اور ایم کیو ایم (سبھی گروپ)کا منفی ردِ عمل کیا کچھ ظاہر نہیں کرتا،کل تک پنجابی کو اردو کی ماں ماننے والے اب اس کے تین ٹکڑے کرکے اسے بے گوروفن چھوڑنے کی بات کرہے ہیں،کیا پنجاب کو اس کے بُرے بھلے کارناموں کی جس میں پنجابی شاعروں،ادیبوں،دانشوروں او ر صحافیوں کی طرف سے اُرود کے لیے بے بہا خدمات بھی شامل ہیں،یہ سزا ملنی چاہیے؟
سوال بہت اہم ہے،اور اس کا جواب بھی اتنی اہمیت اور سنجیدگی و باریکی سے تلاش کرنا پڑے گا،میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچیے!
آگے جبینِ شوق تجھے اختیار ہے
یہ دیر ہے،یہ کعبہ ہے،یہ کوئے یار ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں