خالق کائنات نے ہر نوع کا جوڑا پیدا کیا اس کا بنیادی مقصد افزائش نسل سے کائنات کا نظام قائم رکھنا تھا، نوع انسانی کی ابتدا بھی آدم اور حوا علیہم السلام سے ہوئی، تمام مخلوقات کو دماغ اور سمجھ دی جس سے وہ اپنی خوراک کا بندوبست کر سکیں دشمن کے خطرے کو بھانپ کر حفاظتی اقدام کر سکیں یا دشمن کے حملہ کرنے پر جوابی اقدام کر سکیں۔ جبکہ یہاں ایک بنیادی فرق رکھا انسان کو بھی دماغ اور سمجھ دی کہ وہ بھی یہ سارے کام کر سکے، اس پر اضافی صلاحیت دی کہ وہ سوچ سکے تجزیہ کر سکے اور ان نتائج سے فوری اور مستقبل کے متعلق بھی فیصلے کر سکے، اس صلاحیت کو شعور کہتے ہیں۔ قرآن اسی صلاحیت کے استعمال کی باربار تلقین کرتا ہے کہ سوچو اور سمجھو، غور و فکر کرو۔
اسلام نے انسان کی نسل چلانے کیلئے مرد و عورت کے درمیان ایک ادارہ وجود میں لانے کا طریقہ دیا یہ نکاح ہے، اس ادارے میں بنیادی ڈھانچہ یہ بنایا کہ مرد کو معاشی معاملات کا ذمہ دار ٹھہرایا اور عورت کوافزائش نسل کیساتھ بچوں کی نگہداشت اور تربیت کے کام میں بنیادی ذمہ دار بنایا، مرد کو بچوں کی نگہداشت تعلیم اور تربیت میں کم لیکن اہم کام کا پابند کیا۔ میاں بیوی پر مشتمل اس ادارہ کا یہ بنیادی ڈھانچہ فرض عین نہیں ہے لیکن بچوں کی تربیت انکی مشترکہ اہم ترین ذمہ داری ہے، عورت کیلئے بھی اگر ممکن ہو تو وہ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے یہ صورتحال کبھی مرضی اور خوشی سے تو کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی درپیش آجاتی ہے جیسا کہ خاوند کا انتقال اسکی بیماری یا اسکے چھوڑ جانے کی وجہ سے، لیکن ان سب مواقع پر عورت نے اپنی عزت و وقار کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے بچوں کیلئے قابل فخر شخصیت رہنا ہوتا ہے جبکہ مرد کو اپنی ساری زندگی میں معاشرہ میں معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے خود باوقار عزت دار اور پاک دامن رہنا ہوتا ہے تاکہ اپنے اس خاندان کے ادارہ میں قابل فخر سربراہ رہ سکے۔
عورت اور مرد بحیثیت انسان بالکل برابر ہیں انکے بحیثیت انسان برابر حقوق ہیں لیکن خاندان کے ادارہ میں الگ الگ ذمہ داریوں کے حامل ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ خواتین کو اسلام نے بہت امتیازی حقوق دئیے ہیں، عورت اگر برابری کے حقوق کا مطالبہ کرتی ہے تو وہ اپنی اہمیت حیثیت اور مقام کو کم کر رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سارے حقوق جو اسلام نے عورت کو دئیے ہیں ہمارے مسلم معاشرہ میں بھی ادا نہیں کئے جارہے، عورتوں کاوراثت کا حق اسکی ایک بڑی مثال ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں جو انسانی حقوق کا چارٹر پیش کیا وہ جامع ترین رہنما اصول ہیں، بدقسمتی سے ہم اس چارٹر پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے خواتین کو معاشرہ میں تحفظ حاصل نہیں ہے، ہم ناموس رسالت کیلئے قتل و غارت کیلئے تیار ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی ناموس روز خود پامال کرتے ہیں۔
جانور بھی اپنی مادہ کیلئے خاص وقت موسم اور اسکی خاص حالت کا انتظار کرتے ہیں، ہم انسان اشرف المخلوقات بنائے گئے لیکن ہم نے اپنے جنسی ہیجان کو اس قدر بے قابو کر رکھا ہے کہ چادر لپیٹے حجاب میں جاتی عورت بھی ہماری تیز دھارنظروں سے بے لباس ہو جاتی ہے، اپنے ارد گرد چلتی پھرتی عورت ہمیں اپنے جنسی خلجان کا سامان لگتی ہے، ہم عورت سے کسی بھی وجہ سے مخاطب ہوں تو اسکے ہر فقرے کا مطلب جنسی تعلق کے امکان پر کھینچ لاتے ہیں۔ ہم ایسی صورتحال سے دوچار ہیں کہ ہمارے لئے عمر بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی جوان نوجوان کی بات کیا کریں بوڑھی عمر رسیدہ اور کم عمر نابالغ حتی کہ شیر خوار بچیاں بھی جنسی درندگی سے محفوظ نہیں۔
اس ساری صورتحال کے اسباب کیا ہیں ؟ اس پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے ۔ ہمارا مذہبی طبقہ اسے دین سے دوری کہتا ہے لیکن مدرسوں اور مساجد میں جو واقعات ہوتے ہیں اور ان جگہوں سے جڑے افراد جنسی درندگی کی ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ دین سے دوری کی تشریح درکار ہو جاتی ہے۔ سکول کالج اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور مقتدر لوگ اپنے طلبہ و طالبات کا جس طرح جنسی استحصال کرتے ہیں خواتین اساتذہ کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ پہلے انہیں مقدس شعبہ، ، پیغمبری کام ، روحانی والدین کا فلسفہ پڑھایا جائے۔
خواتین کے مسائل اصل بڑے قومی مسائل میں سے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم مسائل حل کرنے کی بجائے دن مناتے ہیں یاد مناتے ہیں، مزدوروں کے عالمی دن کو مزدوروں کے علاوہ سب مناتے ہیں کام سے چھٹی کرتے ہیں تنخواہ پاتے ہیں صرف اس دن مزدور کام کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمی دن بھی انسانی حقوق غصب کرتے ہوئے منایا جاتا ہے اسکے سیمینار اور ریلیوں کا جائزہ لیں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر آ جائیں گی۔ عورتوں کے عالمی دن پر عورتوں کے حقوق کیلئے سرگرم تنظیمیں جلوس نکالتی ہیں لیکن انکا عام عورتوں اور انکے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اسی دن اب انکے خلاف مذہبی طبقہ جلوس نکالتا ہے لیکن عورتوں کو حق وراثت ملے، اسلام کا دیا ہوا معاشرتی تحفظ ملے بچیوں کی عصمت دری جیسے سنگین مسائل پر یہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا اصل کام یہ نہیں کرتے۔
قومیں اور ریاستیں کسی بھی عالمی دن پر اگلے سال کا ہدف مقرر کرتی ہیں مسائل حل کرتی ہیں انکا ہر آنے والا سال گذشتہ سال سے بہتر ہوتا ہے، ہم نعرے لگاتے ہیں منہ سے جھاگ اڑاتے بحث کرتے ہیں دن گزر جاتا ہے لیکن ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آتی ہم تو اب جھرجھری بھی نہیں لیتے اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ نئے موضوع مل جاتے ہیں نئے بحث چھڑ جاتی ہے ہم بائیس کروڑ دانشور اپنی اپنی دانش بکھیرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے اس سال بھی عورتوں کو انکے مسائل کی موجودگی مبارک ہو باقی خواتین مارچ والے اور انکی مخالفت والے سب اپنے بینر ، پوسڑ اور اشتہار سنبھال کر رکھیں اگلے سال پھر کام آئیں گے کیونکہ کچھ نہیں بدلے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں