• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یومِ خواتین اورعورت مارچ کی اُلٹی چکی میں پستی پاکستانی عورت (حصہ دوم) ۔۔ بلال شوکت آزاد

یومِ خواتین اورعورت مارچ کی اُلٹی چکی میں پستی پاکستانی عورت (حصہ دوم) ۔۔ بلال شوکت آزاد

اب ہم بات کریں گے اگلے سوال کے مفصل جواب پر کہ مادر سری اور پدر سری معاشرے کی تعریف اور بنیادی فرق کیا ہے؟

جیسا کہ اصطلاحات “مادر سری اور پدر سری” سے واضح ہورہا ہے کہ ان کا تعلق صنفِ نازک اور صنفِ آہن سے ہے۔

پہلے بات کرتے ہیں پدر سری یا پدر شاہی نظام کی جسے انگریزی میں Patriarchy کہا جاتا ہے۔

سماجیاتی و معاشرتی ماہرین نے پدر سری یا پدر شاہی نظام کی جو تعریف وضع کی ہے اس کی رو سے

“ایک ایسا سماجی و معاشرتی نظام جہاں مرد بنیادی طاقت کا سرچشمہ مسلم ہوں مطلب مرد جس سماج و معاشرے میں سیاسی قیادت, خانگی ذمہ داریوں کے مسئول, معاشرتی سنہری مواقعوں پر اجارہ دار اور زمین و جائیداد سمیت ہر ملکیتی شہ کے بلا شرکت غیرے مالک ہوں تو وہ سماج و معاشرہ دراصل پدرسری یا پدر شاہی نظام کے تحت چل رہا ہے۔”

اب ہم بات کرتے ہیں مادر سری یا مادر شاہی نظام کی جسے انگریزی میں Matriarchy کہا جاتا ہے۔

سماجیاتی و معاشرتی ماہرین نے مادر سری یا مادر شاہی نظام کی جو تعریف وضع کی ہے اس کی رو سے “ایک ایسا سماجی و معاشرتی نظام جہاں عورتیں بنیادی طاقت کا سرچشمہ مسُلم ہوں مطلب عورتیں جس سماج و معاشرے میں سیاسی قیادت, خانگی ذمہ داریوں کی مسئول, معاشرتی سنہری مواقعوں پر اجارہ دار اور زمین و جائیداد سمیت ہر ملکیتی شہ کی بلا شرکت غیرے مالک ہوں تو وہ سماج و معاشرہ دراصل مادر سری یا مادر شاہی نظام کے تحت چل رہا ہے۔”

تو اب ہم جانتے ہیں کہ مادر شاہی اور پدر شاہی نظام میں کیا بنیادی فرق ہے لہذا اب ہمیں پاکستان میں جاری ان تحریکوں کو سمجھنے میں آسانی رہے گی جن کا منبع و نظریہ مادر شاہی نظام کی تگ و دو ہے۔

پاکستان میں قیام پاکستان کے وقت 100فیصد  پدر شاہی نظام رائج ہوا جو 70 سالوں میں مختلف سیاسی و آمریتی ارتقاء, دائیں بائیں کی مخاصمتوں, جدت و قدامت کی چپقلشوں, حقیقی آزادی و روشن خیالی اور ذرائع ابلاغ کی بے لگام دوڑ میں خواتین کی اکثریت کی شمولیت کے بعد اب گھٹ اور کٹ کر 70% رہ گیا ہے جس کا 80فیصد حصہ شہروں میں پایا جاتا ہے جبکہ باقی کا 20فیصد  دیہی علاقوں میں موجود ہے۔

مطلب اس وقت ہم من حیث القوم 70فیصد  پدر شاہی نظام اور 30فیصد  مادر شاہی نظام میں رہ رہے ہیں اور موجودہ خواندہ خواتین کو یہی وہ آگاہی اور احساس ہے جس نے فیمنسٹ تحاریک اور این جی اوز کو پاکستان میں مواقع فراہم کیے ہیں مطلب اب پاکستان کی عام عورت خاص بنتی جارہی ہے اور خاص نفوس معاشرے میں حکم لیتے نہیں بلکہ دیتے ہیں والی بات ذہن میں بٹھا کر خواتین روز بروز وہ نادیدہ و دیدہ بیریئرز توڑ کر باہر نکل رہی ہیں جن میں خواتین خود کو قید سمجھتی ہیں۔

میں پدر شاہی نظام کے حق میں ہوں لیکن پدر شاہی نظام کی آڑ میں مردوں کا خدائی دعویدار ہونا کسی صورت قبول نہیں۔

اس وقت پاکستان کا عائلی نظام تو پدر شاہی ہی ہے پر شہروں اور جدید تعلیم سے آراستہ خاندانوں میں چیزیں بیلنس ہوتی جارہی ہیں کہ وہاں مرد 70% اور 60% اختیارات کے ساتھ راضی ہیں جبکہ خواتین 30% اور 40% فیصد اختیارات اور آزادی کے ساتھ پہلے سے قدرے مطمئن ہیں۔

پاکستان میں پدر شاہی کی سب سے گھٹیا خرابی جانتے ہیں کیا ہے؟

عورت کو جوتی سمجھنا, ناقص العقل سمجھنا, اس کے جسم پر مرضی جتانا (جبکہ دعوہ یہ ہو کہ میرا جسم اللہ کی مرضی حالانکہ جب بات اللہ کی مرضی کی ہورہی ہو تو اللہ نے عورت کے جسم پر مرد کی مرضی مسلط نہیں کی بلکہ مرد کے لیے حق و فرائض مرتب کرکے صرف گنجائش پیدا کی ہے) اور عورت کو بھیڑ بکری کی طرح ڈیل کرنا وغیرہ۔

پاکستان میں جنوبی پنجاب, اندرون سندھ, قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کی اکثریتی حدود میں پدر شاہی نظام کا سب سے بھیانک اور خطرناک پہلو کارفرما ہے۔

جیسے کہ ونی, سوارہ, خانگی زناء, کاروکاری, تعلیم پر روک ٹوک, قرآنی شادیاں, ولی کی اجارہ داری والی شادیاں اور غیرت کے نام پر طلاقین اور قتل و دیگر زمانہ جاہلیت جیسی ظالمانہ رسم و رواج اور جرگہ سسٹم کی ہٹ دھرمی پاکستانی پدر شاہی نظام کے تاریک گوشے اور تلخ سچ ہیں جو جنوبی پنجاب, اندرون سندھ, قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کی اکثریتی حدود میں جا بجا نظر آتے ہیں۔

جب یہ خرابیاں اور خراب عمل موجود ہیں تو ایسے میں ایک طاقت ور اور شدید ردعمل آنا اور معاشرے کی سطح و بنیادیں ہلا دینے والے محرکات و تحاریک کا کھڑا ہونا اچھنبے والی نہیں بلکہ خوداحتسابی و فکر والی بات ہے اور ہمیں اب بزور طاقت ایسی آوازوں کو دبانے کے بجائے صحت مند مکالمے اور تحقیق کی طرف آنا ہوگا لیکن پہلے سچ تسلیم کرنے کی ہمت پیدا کرنے کی طرف غور کرنا ازحد ضروری ہوچکا ہے۔

تبھی ہم حالیہ کچھ عرصے سے جاری “میرا جسم میری مرضی” والی ہڑبونگ اور حقیقی آزادی نسواں میں فرق پیدا کر سکیں گے جو خواتین کو ایک صحیح سمت دلائے گا۔

جاری ہے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply