سندھ کے ضلع دادو میں سیہون کے علاقے جھانگارہ میں غریب مزدور کی 18سالہ بیٹی میٹرک کی طالب علم تانیہ کو علاقے کے بااثر وڈیرے نے مبینہ طور پر گھر میں گھس کر قتل کردیا اور پھر اس کی خون میں لتھڑی ہوئی لاش کی موبائل سیل سے تصویر بنائی اور پھر وہاں سے فرار ہوگیا۔ اس لڑکی اور اس کے ماں باپ کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے وڈیرے کے ساتھ زبردستی شادی سے انکار کردیا تھا جس کا بدلہ تانیہ کی موت کی صورت میں لیا گیا۔ بعدازاں یہ تصاویر سندھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر منظرعام پر آئیں۔ یہ واقعہ ٹھیک اسی شام کو ہوا جس دن ملک کی سپریم کورٹ نے سندھ کے آئی جی پولیس کو مکمل اختیارات تفویض کرنے کا سندھ کی حکومت کو حکم جاری کیا۔
یہ واقعہ جس علاقے میں ہوا وہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا حلقہ بھی ہے۔ سید مراد علی شاہ تانیہ کے گھر تعزیت کے لیے گئے تو مقتول تانیہ کی ماں وزیراعلیٰ کے قدموں سے لپٹ کر انصاف کی فریاد کرنے لگی۔ تانیہ کی ماں کی آہ و بکا دیکھ کر در و دیوار بھی لرز اٹھے، کوئی بھی حساس دل یہ منظرنہیں سہہ سکتا۔ تمام ماں باپ اپنے بچوں کو بڑی محبت اور شفقت سے پالتے ہیں پڑھاتے لکھاتے ہیں۔ خاص طورپر سندھ کے پس ماندہ علاقوں میں بچوں کو پڑھانا اور پھر وہ بھی لڑکیوں کو پڑھانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ایک ایسے علاقے میں جہاں تعلیم کے لیے حالات ہی سازگار نہیں ہوتے۔ پرائمری تک تو کسی طرح لڑکیاں پڑھ لکھ جاتی ہیں لیکن ہائی سکول علاقے سے دور دراز گوٹھوں میں واقع ہوتے ہیں۔ راستوں میں کھیت کھلیان بھی پڑتے ہیں ایسے دور افتادہ علاقوں میں بچیوں کو تعلیم کے لیے سکول تک چھوڑنے جانا اور واپس لانا بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
ایک غریب محنت کش نے اپنی بیٹی کو کس جتن سے تعلیم دلوائی ہوگی حالات کے خلاف جاکر معاشی و معاشرتی نظام سے لڑ کر خاندان والوں کے طعنوں کو سہہ کر بچی کو پڑھایا اور پھر تانیہ نے بھی میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کردکھایا ۔ ماں باپ کتنے خوش ہوں گے ۔ان کے دلوں میں کتنے ارمان اور آنکھوں میں کتنے خواب ہوں گے کہ پڑھ لکھ کر ان کی بیٹی کو ایک بہتر مستقبل مل جائے گا اور پھر نجانے کتنے دن اور وڈیرے کی طرف سے دباؤ کا شکار رہے ہوں گے، جس کی نظر ان کی بچی پر پڑ گئی۔ اسی محنت و مشقت اور قربانی کے بعد بھی غریب ماں باپ اپنی بیٹی کی جان کی حفاظت نہ کرسکے اور ان کی اولاد ان کی عمر بھر کی محنت کو ان کی آنکھوں کے سامنے بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس سے بڑی قیامت کسی ماں باپ پر بھلا اور کیا گزر سکتی ہے ۔ مجرم دندناتا ہوا آیا اور دندناتا ہوا چلا گیا۔ اس کی جھوٹی انا اور انتقام کی پیاس ایک معصوم بے گناہ لڑکی کے خون سے بجھ گئی تو جائے وقوعہ سے فرار ہوگیا۔
لطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی زمین سندھ جسے ولیوںاور صوفیوں کی سرزمین کہاجاتا ہے جو امن و آشتی کا گہوارہ سمجھی جاتی تھی اب سخت گیر جاگیرداروں، سیاستدانوں اور عیاش وڈیروں کی آماجگاہ ہے ۔یہاں کبھی عورت کی عزت کی جاتی تھی مگر اب یہاں عورتوں کی بے حرمتی، قتل اور ان کا اغواءآئے روز کا معمول ہے ۔یہاں عورتوں کو پامال کرنے کی قبیح ترین رسمیں جاری ہیں ۔ان سفاک وڈیروں کے ہاتھوں غریب کی بیٹیاں آئے روز ظلم کا شکار ہوتی ہیں مگر کو ئی آواز نہیں اٹھا سکتا، وہاں لوگ اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے باہر نہیں نکال سکتے اس لیے لاکھوں بچیاں تعلیم کو خیرباد کہہ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں ۔ اور اگر کوئی ہمت کرکے اپنی بچی کو تعلیم دلوانے کے لیے قدم اٹھالے تو اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو غریب تانیہ کا ہوا۔
ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس کے پہلے پانچ ماہ کے دوران سندھ میں خواتین کے ساتھ ناانصافی کے 379واقعات ہوئے جن میں اغواء ، قتل، بے حرمتی، گھریلو تشدد جیسے واقعات شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ضلع خیرپور میں 49واقعات پیش آئے جن میں 14خواتین اغواءہوئیں، 6 نے خودکشی کرلی جبکہ 3کو کاروکاری کرکے قتل کردیا گیا اور دو کی بے حرمتی کی گئی۔ نوشہرو فیروز پور میں 33واقعات ہوئے جن میں دس خواتین کے اغوا، چھ قتل اور چار کی خودکشی شامل ہے۔ 9خواتین گھریلو تشدد کا شکارہوئیں۔ لاڑکانہ میں 24واقعات میں 8اغواءشامل ہیں، تھرپارکر میں آٹھ خواتین نے خودکشی کی۔ شکار پور میں 24، سکھر میں21، گھوٹکی میں22، حیدرآباد میں 118، دادو میں19، جامشور میں14، کراچی میں 14، سانگھڑ میں18، بدین میں 13، میرپور خاص میں 9، عمرکوٹ میں 18، ٹھٹھہ میں6، کشمور میں12، نوابشاہ میں18، مٹیاری میں7، ٹنڈوالہ یار میں4واقعات پیش آئے۔ مختصراً یہ کہ سندھ میں عورتوں کے اغواء ، قتل، تشدد اور عصمت دری کے واقعات روز کا معمول ہیں۔
تانیہ کی ماں گورنر سندھ کے پیروں سے لپٹی انصاف مانگتی ہے مگر اسے کون سمجھائے کہ اسے کبھی انصاف نہیں مل سکے گا۔ ظلم کے خلاف کوئی آواز تک نہیں بلند کرے گا کیونکہ یہ نظام کسی غریب ، کمزور کو انصاف نہیں دلا سکتا۔ یہ تو غریب کی بیٹی کے قتل کا معاملہ ہے جبکہ یہاں تو سندھ کی اس بیٹی کا لہو بھی آج تک انصاف کا سوالی ہے جو وہاں سے دوبار وزیراعظم بنی مگر دو بار وزیراعظم بھی بن کر سندھ کی بیٹیوں کی قسمت نہیں بدل سکی۔ عورتوں کے خلاف مظالم کو نہیں روک سکی ۔وہاں بھٹو آج بھی زندہ ہے مگر آج بھی وہاں بیٹیاں قتل ہوتی ہیں حتیٰ کہ بھٹو کی اپنی بیٹی بھی شہید کردی جاتی ہے۔۔ تو پھر بھلا خاصخیلیوں، ملاحوں اور ماچھیوں کی بیٹیوں کو انصاف کیسے ملے گا۔ تانیہ کی ماں کو کون سمجھائے کہ وہ وڈیرا کسی بڑی سیاسی شخصیت کا خاص آدمی ہوگا۔ ان جاگیرداروں اور وڈیروں کے سامنے ایک غریب مزدور کی بیٹی کی عصمت و حیات کیا معنی؟ ۔
ایسے علاقوں میں غریب کی بیٹیوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ میڈیا کے پاس اور بڑی خبریں ہیں ۔غریب کے بچے قتل کردیے جاتے ہیں مگر قاتلوں کو کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ کراچی میں25دسمبر 2012ءمیں شاہ زیب کو جوکہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اسے ایک بااثر وڈیرے کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا تھا ۔ پوری دنیا میں اس قتل پر شور مچا مگر کیا اس کی ماں کو اس کے بیٹے کا انصاف مل گیا؟ 12سال قبل ضلع جیکب آباد سے اغوا ہونے والی فضیلہ سرکی کیا آج تک بازیاب ہوسکی؟ اس کے والدین آج تک اپنی بچی کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔ ایسے واقعات میں کبھی کبھار ملزم پکڑ بھی لیے جاتے ہیں لیکن ان کو قرارواقعی سزا نہیں دی جاتی جیسے کہ شاہ زیب کے قاتل کی پھانسی کی سزا پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ کل بھی آئی جی سندھ نے پریس کانفرنس کے دوران یہ انکشاف کیا ہے کہ تانیہ کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔لیکن کیا پچھلے واقعات کی روشنی میں یہ امید کی جاسکتی ہے کہ تانیہ کی ماں کو انصاف مل سکے گا؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں