ایک بدو آیا اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا ۔ بعض لوگ اسے منع کرنے کے لئے آگے بڑھنے لگے تو رسالت مآب ﷺ نے فرمایا رک جاؤ ۔ اسے اپنی ضرورت پوری کرنے دو۔ بعد میں ا س جگہ پانی بہا دو۔ مقصد یہ کہ لوگوں پر سختی نہ کرو۔ اپنی ہٹ دھرمی اور سختی دکھا کر انہیں دین سے متنفر نہ کرو۔ کسی کم علم کی غلطی اور کوتاہی پر بھی محبت، پیار اور جذبہ ء ترحم پیش نظررہے۔
ایک اور پہلو عقائد اور فرائض کا ہے ۔نماز روزہ فرائض اور بنیادی ارکان اسلام میں شامل ہیں۔ان میں کتنی گنجائش ہے وہ بھی ملاحظہ ہو ۔بیمار اور مسافر ہو تو روزے بعد میں رکھ لو۔ بیماری کی وجہ سے کھڑے نہیں ہو سکتے تو نماز بیٹھ کر پڑھ لو۔ تکلیف زیادہ ہے بیٹھ نہیں سکتے تو لیٹ کر پڑ ھ لو۔ اشارے کنائے میں پڑھ لو۔ سفر میں ہو تو نماز قصر کر لو ۔ وضو کے لئے پانی نہیں تو تیمم کر لو ۔اسلام کو اسی لئے دین فطرت کہا گیا کہ ا س کے احکام میں انسانی ضروریات ، حالات ، تکالیف ، بشری کمزرویوں اور نزاکتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔
پر کیا کریں ایسے مفتیانے پن کا جو گفتگو میں توتصنع کی حد تک دھیما پن ظاہر کرتا ہے پر لوگوں کو کوئی رعایت دینے کو تیا رنہیں ۔صرف اپنا پگڑ اونچا رکھنے کی خاطر فی زمانہ سب سے بڑی انسانی بقا کی ضرورت کے باوجود مفتی بضد ہے کہ نماز کا اجتماع تو کریں گے ۔ جمعہ تو ہر حال میں مساجد میں ہوگا ۔ نماز باجماعت موقوف نہیں کی جاسکتی ۔ جمعہ چھوڑا نہیں جا سکتا ۔
ہے کوئی ان سے پوچھنےوالاکہ بیماری سفر ، اور دوسری بشری ضروریات کی وجہ سے کیا کبھی کوئی نماز باجماعت آ پ سے نہیں چھوٹی ۔ کوئی جمعہ کبھی پڑھنے سے نہیں رہا ۔ جب ایک فرد کی ضرورت ، بیماری یا بیمار پڑنے کے احتمال کی وجہ سے اسے اجازت ہو سکتی ہے تو اجتماعی بیماری یا بیماری کے خدشے کی وجہ سے افراد کو اجازت کیوں نہیں مل سکتی ۔ ایک فرد کو بیماری کا اندیشہ ہو تو اسے اجازت۔ لیکن اجتماعی بیماری کا خطرہ ہو تو مساجد میں نماز با جماعت عارضی طور پر موقوف کیوں نہیں ہو سکتی ؟
پھر سن لیجیے سرور کائنات ﷺ نے حنین، حدیبیہ کےموقع پر صرف سردی اور بارش کی وجہ سے نماز با جماعت موقوف کی اور اپنے اپنے گھروں ،اپنے اپنے خیموں میں نماز پڑھنے کا اعلان کروایا۔ حضرت ابن عباس اورعبداللہ بن عمر نے اپنے اپنے وقت میں ضرورت کے وقت صلو ا فی رحالکم ’’ کہ نماز باجماعت کے لئے مسجد میں آنے یا اکٹھے ہونے کی ضرورت نہیں اپنے اپنے گھروں اور خیموں میں نماز ادا کرو ‘‘ کی صدا لگوائی ۔ ایسا اعلان روزانہ کی فرض نمازوں پر بھی ہوا اور نماز جمعہ کےمتعلق بھی ۔ صحیح بخاری سے لے کر مسند احمد بن حنبل تک کتب احادیث ان واقعات پر گواہ ہیں
ایک اصولی حکم جس کا تذکرہ آج کل بار بار ہو رہا ہے کہ وہاں نہ جاؤ ،جس جگہ وبا پھیلی ہو اور نہ وہاں سے نکل کر ایسے علاقے میں جاؤ جہاں ابھی وبا پہنچی نہیں۔ آپ ﷺ کے ان الفاظ سے بڑھ قرنطینہ کی تعریف اور کیا ہو سکتی ہے۔؟ احادیث میں لفظ’’ ارض ‘‘ استعمال ہواہے ۔جس سے ملک، علاقہ، صوبہ ، شہر ، گاؤں ، محلہ حتی کہ گھر بھی مراد لیا جائے گا ۔ یعنی کوئی جگہ ،کوئی خطہ زمین چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا۔ جہاں وبا موجود ہو دوسروں کو بچانے کے لئے وہاں سے نہ نکلو اور خود بچنے کے لئے اس جگہ نہ جاؤ جہاں بیماری ہو۔
ایک اور پہلو دیکھ لییئے ۔لہسن ، پیاز یا ایسی چیز جس کی بدبو سے دوسرے نمازی کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو کھا کر مسجد آنے سے منع کیا گیا ہے حالانکہ اس سے وقتی کراہت ہو سکتی ہے کوئی بیمار نہیں پڑ سکتا ۔ تو ایسے بیمار ، جس سے بیسیوں لوگوں کے بیمار پڑنے کا احتمال ہو، کو مسجد سے روکنا جائز کیوں نہیں ہوگا۔پھر جب معلوم ہی نہ ہورہا ہو کہ کون بیمار پڑ چکا ہے اور کون کون وائرس کے پھیلانے میں مدد گار ہو رہا ہے تو پھر اجتماعی ذمہ داری کا ثبوت یہی ہو گا کہ زندگیاں بچانے کی خاطر نماز اور جمعہ کے اجتماعات وقتی طور پر موقوف کر دیے جائیں ۔
تھوک کے حساب سے پائے جانے والے مفتیان ، اور جبہ پوشوں کو خبر بھی ہے کہ زندگی کی قیمت کیا ہے ؟ سن لیجیے ! ایک قتل ناحق کا مطلب گویا ساری دنیا کو قتل کر دینا ہے ۔ اور ایک انسانی جان بچانے کا مطلب گویا انسانیت کو بچا لیا ہو۔ زندگی بچانے کی خاطر حرام قرار دی گئی اشیاء کے استعمال کی بھی اجازت عطا ہوئی۔ ایک طرف زندہ رہنے کے لئے سور بھی کھانا پڑے تو کھا لیں کا خدائی حکم ۔ اور دوسری طرف زندگیاں بچانے کی خاطر صرف نماز باجماعت اور جمعہ کے اجتماع کو موقوف کرنے کی حقیقی ضرورت۔ آپ فتوؤں کی پٹاری لے کر دین سےمتنفر کرنے آگئے ہیں ۔ بضد ہیں کہ ایسا ہونے نہ دیں گے۔
مفتی صاحب! انسانیت کو بچانے کا درس دیجیے ۔ لوگوں کو خوشخبری اوربشارتیں دیں ۔ ان کو دین سے متنفر نہ کریں ۔ آسانیاں پیدا کریں انہیں تکالیف میں نہ ڈالیں ۔ دعا کریں کہ یہ وبا دور ہو ۔ انسانیت کے ان خدمتگاروں کو خراج تحسین پیش کریں جو سر نیہوڑے دن رات اس کی ویکسن بنانے کے لئے متفکر ہیں۔ ان ڈاکٹروں کی حوصلہ افزائی کریں جو بیماروں کی خاطر اپنی جانیں داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں ۔
جس وائرس نے 160ملکو ں کو ہلا دیا ہے ۔دنوں میں نو ہزار اموات ہو چکی ہیں۔ دولاکھ سے زائد انسان بیمار پڑ چکے ہیں ۔ بہتر ہے آپ اس وائرس سے متھا نہ لگائیں ۔ چپ چاپ سائیڈ پر لگ جائیں ۔ ورنہ فتوٰی دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ بیماری پھیلانے کا باعث بھی بنیں گے اور خجل خوار بھی ہوں گے۔

اللہ خیر! کرونا کے بعد پھر سلسلے چل نکلیں گے۔ویسے بھی آپ کی سرکاری نوکری تو فی الحال پکی ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں