غفلت اور بے احتیاطی ہمیں لے ڈوبے گی۔۔محمد احمد

دنیا اس وقت ایک وبائی مرض کرونا کی لپیٹ میں ہے، چین سے شروع ہونے والی یہ وبا عالم کے ہر خطے میں اپنے مضبوط پنجے گھاڑ چکی ہے۔ زمین پر اپنے آپ کو خدا تصور کرنے والے اور ہر طرح کے وسائل سے مالا مال اور جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس ممالک اس معمولی جرثومہ کے سامنے ڈھیر ہوگئے ہیں، اب تلک اس کا علاج دریافت نہیں ہوسکا۔ لاکھوں لوگ اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں اور ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، لیکن بیماری ختم ہونے کا نام نہیں   لے رہی ہے۔ یہ ہمارے اعمال کی شامت اور گناہوں کا نتیجہ ہے، ہماری سرکشی اور بغاوت پر عروج پر جا پہنچی تھی۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے بیماری اور شفا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اب اس وبا، مصیبت اور آزمائش سے نجات کا حل اللہ کے در کے سوا کہیں نہیں، ہمیں اجتماعی، انفرادی طور پر رب کے حضور گڑگڑا کر دعا کرنی چاہیے اور اپنے کیے ہوئے گناہوں پر ندامت کا اظہار اور معافی مانگنی چاہیے اور آئندہ کے لیے سچی توبہ کرنی چاہیے۔

یہ پہلی اور آخری وبا نہیں اس سے پہلے بھی بیشمار وبائیں آئی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں اموات ہوئی ہیں لیکن پہلے اتنا خوف وہراس نہیں ہوتا تھا، یہ خوف کی فضا اور بے چینی یہ سب میڈیا کا کارنامہ ہے، جس نے اس پریشانی میں مزید اضافہ کیا ہے اور خوف پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، حالانکہ ان حالات  میں ان پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ آگاہی مہم چلاتے اور مثبت رپورٹنگ کرتے ،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، اس پر مستزاد سوشل میڈیا نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور رہی سہی کسر پوری کردی اور قریب قریب لوگوں نفسیاتی مریض اور وہمی بنادیا۔
اتنی تعداد میں غلط خبریں اور وافر مقدار میں جھوٹ پھیلا گیا کہ الامان والحفیظ!

اس ساری صورتحال میں مایوس کُن رویہ لبرل اور سیکولر حضرات کا رہا ہے جو مذہب اور اہل مذہب پر طنز وتشنیع کے نشتر چلاتے رہے اور انتہائی نامناسب رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ جب کہ دعوی ٰ ان کا ہے سائنس ہر مشکل کا حل ہے تو پھر ان کی سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کہاں گئی اور اب تک علاج کیوں نہیں دریافت کیا؟

وطن عزیز میں بھی یہ وبا بے احتیاطی اور حکومت کی غفلت کی وجہ سے بڑھی، تفتان بارڈر پر غفلت کی انتہا کی گئی، جب چین کی حالت ہمارے سامنے تھی تو حکمران کچھ ہوش کے ناخن لیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ زائرین کو واپس نہیں لیتے ،یقینا ًیہ ہمارے ملک کے شہری ہیں اور مشکل وقت میں جب ان کو دوسرا ملک قبول نہیں کررہا تھا تو ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے شہریوں کے لیے تفتان بارڈر پر آئسوليشن سینٹر اور قرنطینہ قائم کرتے تاکہ ملک کی دوسری آبادی کو بچایا جاسکے لیکن اس کے برعکس زائرین کو شہری آبادی کے بیچ میں ٹھہرایا گیا اور پھر بعض جگہوں سے ناقص کارکردگی کی شکایات موصول ہوتی رہیں۔

پھر صوبے اور مرکز مسلسل الگ الگ پیج پر کھڑے نظر آرہے تھے،اب تک فیصلوں میں تضاد ہے، یہ ایسا وقت تھا مکمل منصوبہ بندی سے قوم کے مفاد میں ایک ایسا متفقہ فیصلہ نافذ کیا جانا چاہیے تھا جس سے اس کا ممکنہ پھیلاؤ روکا جاسکتا تھا۔ ابھی تک دس سے اوپر اموات ہوچکی ہیں اور چودہ سو سے اوپر کیسز سامنے آچکے ہیں۔ اب بھی حالات اللہ تعالیٰ کے فضل سے کنٹرول میں ہیں، ہمیں مکمل احتیاط تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔

اطباء اور ڈاکٹر حضرات جو بھی ہدایات دے رہے ہیں ان پر مکمّل عمل کیا جائے، یہ وقت مزید غفلت کا نہیں بلکہ سنبھل جانے کا ہے کہ آگے کوئی غلطی اور بے احتیاطی سرزد نہ ہو، ورنہ تو ہر بندہ اپنی جان کے علاوہ ہزاروں افراد کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہمیں احتیاطی تدابیر اور علاج سے نہیں روکتی، بلکہ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مواقع پر اپنی امت کی رہنمائی فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ:جس شہر یا علائقہ میں وبا ہو اس طرف سفر نہ کریں اور وہاں مقیم لوگ باہر کی جانب نہ نکلیں۔صحابہ کرام نے ان ہدایات پر باقاعدہ عمل کیا اب ضرورت ہے کہ ہم مسلمان بھی اپنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کریں۔
جو بھی احتیاطی تدابیر اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں وہ ہرصوت میں اپنائی جائے، صفائی کا خاص خیال رکھیں اور بار بار وضو کریں۔ مجمعہ اور جم گھٹے سے بچیں، بوڑھے اور بچے مساجد اور بازاروں کی طرف نہ جائیں، مصافحہ اور معانقہ سے گریز کریں۔ نوکری پیشہ طبقہ کو بڑے عرصے کے لیے مستقل مکمل وقت گھر میں خواہی نہ خواہی رہنا پڑ رہا ہے، آپ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاکر سنت نبوی پر عمل کیجئے اور بیوی بچوں کے ساتھ شفقت اور پیار کا معاملہ کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ کام اور بھی کرنے  ہیں کہ لاک ڈاون میں سب سے زیادہ مزدور اور دیہاڑی طبقہ متاثر ہوا،اپنے پڑوس اور محلے میں غریب اور نادار لوگ تلاش کرکے ان کی مدد کیجیے اور اس بات کا بھرپور خیال رکھیں کہ کسی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ نیکی اس طرح کریں بائیں ہاتھ کو پتہ تک نہ چلے۔ بچوں کی تعلیم بہت متاثر ہوئی ہے، گھر پر خود یہ کمی پوری کریں یا آن لائين انتظام کرکے تلافی کریں، اس میں آپ کے بچوں کی تعلیم بھی ہوگی اور دوسرے بیچارے کا چولہا بھی جلے گا۔
یہ وقت فضول اور لایعنی مشغلوں میں ہرگز ضایع مت کیجئے بلکہ تنہائی میں رجوع الی اللہ اور اپنے گناہوں پر معافی مانگیں۔ زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن پاک بمع ترجمہ وتفسير پڑھنے کی کوشش کیجئے اور حدیث شریف کا مطالعہ بھی جاری رکھیے، یہ عمل آپ کی زندگی میں انقلاب بپا کرسکتا ہے، آپ اچھے انسان کے ساتھ ساتھ اچھے مسلمان بنیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں جلد اس وبائی مرض سے نجات دے تاکہ زندگی معمول پر آسکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply