عجب وبا پھیلی تھی۔ کچھ علاقے بالکل متاثر نہ ہوئے تھے، مگر بعض علاقوں میں ناقابلِ بیان دہشت کا عالم تھا۔ ایسا وائرس پھیلا تھا کہ لوگ بات کرتے تھے اور بونے ہوجاتے تھے۔ مگر ایک عجب بات تھی کہ یہ وائرس ایسا تھا کہ سب چھوٹے نہیں ہوتے تھے۔ کئی لوگ باتیں کرتے رہتے تھے مگر ان کا قد چھوٹا نہیں ہوتا تھا۔ خوانچہ فروش، مزدور، نانبائی، کوڑا اکٹھا کرنے والے سب اپنی جسامت میں رہ رہے تھے۔ گپیں لگا رہے تھے اور خوش تھے بلکہ گمان ہے کہ پہلے سے کہیں زیادہ بول رہے تھے۔
عجب معاملہ تھا کہ کچھ شعبوں کے لوگ بُری طرح متاثر ہوئے تھے،ٹی وی پر بےلگام چرب زبانی سے اپنا قد بڑھا چڑھا کر بیان کرتے اینکر پرسن، جھوٹ کے پلندوں سے اپنی لیاقت کا اظہار کرتے کالم نگار، نوکری کے قصوں کی بیساکھیوں سے اپنی قامت کو اونچا کرتے ریٹائرڈ بیوروکریٹ، دوسروں کی بات کو بار بار کاٹ کر اپنی بہادری کی طومار لگاتے ریٹائرڈ جرنیل، اپنی مخفی کرامات کو آشکار کرتے مزاروں کے سجادہ نشین، سب بری طرح اس وائرس کی لپیٹ میں تھے۔ ان میں سے کوئی قصہ شروع ہی کرتا تھا کہ اسکا قد ٹھگنا ہوجاتا تھا۔ کچھ کا خیال تھا کہ ٹھگنے نہیں بلکہ وہ اپنی اصل قامت کے ہوجاتے تھے۔
انہوں نے منہ پر ماسک لگائے کہ وہ بات نہ کریں مگر پھر بھی عادت سے مجبور کوئی نہ کوئی بات ماسک کے پیچھے سے کر دیتے اور یک دم پستہ قد ہوجاتے۔ سرکاری ریسرچ سنٹروں کو ارجنٹ گرانٹ دی گئی کہ چٹکیوں والے ماسک تیار کریں۔ ان ماسک کی ساخت ایسی تھی کہ سامنے ماسک تھا اور پیچھے چٹکیاں تھیں جو ہونٹوں کو پکڑے رکھتی تھیں کہ بے ضرورت بلکہ ضرورتاً بھی آواز نہ نکل سکے۔
کچھ دنوں پر ایک ریسرچ سامنے آئی۔ دفتروں میں کام کرنے والوں کی کارکردگی بہتر ہوگئی تھی، ذہنی امراض میں کمی آگئی تھی، مذہبی رواداری بڑھ گئی تھی، عام آدمی کی زندگی میں سکون بڑھ گیا تھا اور معاشرے میں شور کی آلودگی کم ہوگئی تھی۔

لوگوں نے اس وائرس کا نام سکونا رکھ دیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں