یہ دور جس سے ہم گزر رہے ہیں یہ قرب قیامت کا دور ہے،پیغمبرِ اسلام نے قرب قیامت امت میں پیدا ہونے والے فتنوں کی اطلاع دے رکھی ہے۔قیامت سے پہلے فتنوں کا ظہور قیامت کا پیشں خیمہ ہو گا۔ان کو قیامت خاصہ اور علامات کبریٰ کہا جاسکتا ہے۔جن میں اکثر علامات پوری ہوتی نظر آرہی ہیں۔حضرت ابو ہریرہ رضہ سے روایت کہ رسول خدا بیان فرما رہے تھے۔ایک اعرابی (بدو) آیا اور اس نے پیغمبر اسلام سے پوچھا قیامت کب آئے گی؟آپ صلعم نے فرمایا کہ جب امانت ضائع کی جانے لگےتو اس وقت قیامت کا انتظار کرو۔اس اعرابی نے عرض کیا کہ امانت کیسے ضائع کی جائے گی؟پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا کہ جب معاملات نا اہلوں کے سپرد کیے جانے لگیں تو انتظار کرو قیامت کا۔۔(صیح بخاری)
جامع ترمذی کی ایک روایت ہے جو ابو ہریرہ سے ہی مروی ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا جب غنیمت کو ذاتی دولت بنایا جائے،امانت کو مال غنیمت اور زکوٰۃ کو تاوان بنا لیا جائے،اور دین کے علاوہ دنیاوی مقاصد کے لیے بھی علم حاصل کیا جانے لگے،اور لوگ بیویوں کی فرماں برداری کریں اور ماں کے نافرمان ہو جائیں،اور دوستوں کو باپ پر فوقیت دیں،مسجد میں دنیاوی باتیں ہونے لگیں،اور قوم کا لیڈر فاسق و فاجر اور سب سے کمینہ شخص ہو،اور کسی کے ڈر سے اس کا احترام و اکرام کیا جانے لگے،ااور گانے بجانے والیاں عام ہوں،اور شرابیں پی جائیں اور امت کے بعد میں آنے والے اگلوں پر لعنت کریں تو اس وقت انتظار کرو سرخ آندھیوں کا اور زلزلوں کا اور زمین میں دھنسائے جانے کا اور صورتیں مسخ کیے جانے کا اور پتھر برسنے کا اور اس کے علاوہ نشانیوں کا جو پے در پے اس طرح آئیں گی جس طرح ہار جو کاٹ دیا جائے اور اس کے دانے پے در پے گرنے لگیں۔
احادیث رسول قدس کی روشنی اور خالق کائنات کی لاریب کتاب قرآن پاک کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں بھی سابقہ قوموں پر آنے والے عذاب الٰہی کے چار اسباب پتہ چلتے ہیں۔
1-شرک
2-تکبر
3-بے حیائی اور فحاشی
4-سود خوری اور کم ناپ تول
اگر ان اسباب کو دیکھا جائے تو ہم ان اسباب سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔باقی دنیائے کفرکو ایک جانب رکھ کر اگر دیکھا جائے تو امت مسلمہ میں یہ چاروں اسباب موجود ہیں۔ ان اسباب کے علاوہ کئی اور دیگر قبیح اعمال ہم میں موجود ہیں اور خصوصا ًاہل عرب جوکہ اسلام کے اصلی وارث تھے ۔جن کے آباؤاجداد کی بدولت اسلام کو عروج ملا۔ان کے ہاں عیاشی اور تکبر،بے حیائی اور فحاشی عروج پر ہے۔کشمیر،فلسطین،برما،شام اور عراق میں امت مسلمہ کے قتل عام اور حالت زار پر خاموشی ان کی بے ضمیری کی بڑی نشانی اور اپنا تیل بیچنے کے لیے خود غرضی کی بڑی علامت تھا۔آج جب سب دنیا لاک ڈاؤن کا شکار ہے رب کائنات نے ان کی بے ضمیری اور لالچ کا اچھا صلہ دیا اور کم داموں پر بھی تیل نہیں خریدا جا رہا اور نہ وہ بیچ پا رہے ہیں۔لاکھوں مسلمانوں کے قاتل ہندوستان کے ہندو وزیراعظم کو سعودی عرب اور دبئی میں بلا کر اس کو قیمتی اعزازات سے نوازنا اور اس کی آمد پر جشن منانا۔عرب کی وہ مقدس سر زمین جہاں سے پیغمبر اسلام نے بت خانے ختم کیے اور بڑے بڑے بت توڑے۔وہاں کے موجودہ عیاش حکمران ایک قاتل ہندو کو بلا کر بت خانے تعمیر کررہے ہیں۔اس شرم ناک فعل کا خمیازہ عیاش عربوں کو بھگتنا پڑے گا۔
آج جب خالق کائنات کی جانب سے مظلوم اور بے بس بچوں اور عورتوں کی آہوں اور سسکیوں کے بدلے گھروں میں بیٹھے،بازاروں میں گھومتے اور کلبوں میں ناچتے عیاشوں پر وبا اتری تو ایک دم انسانی حقوق یاد آئے۔اور سب اس خالق حقیقی کے سامنے سر نگوں ہونے لگے۔جب خود لاشوں سے بھرے تابوت اٹھانے پڑے تو شام،عراق،فلسطین اور کشمیر کے معصوموں کا قتل عام یاد آیا۔انصاف کے ٹھیکے داروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو چند دن میں اٹلی اور سپین سے تو ہمدردی ہو گئی،مگر نصف صدی سے اپنی آزادی اور جائز حقوق مانگنے والے کشمیری اور فلسطینی عوام سے کوئی ہمدردی نہ جاگی۔یہ ہمارا دوہرا معیار ہے۔اب ہم لاکھ مندروں میں چڑھاوے چڑھائیں،چرچوں میں گھنٹے بجائیں یا مساجد میں یا پوری رات چھتوں پر اذانیں دیں جب تک ان معصوم اور نہتے لوگوں کی شہادتوں کے برابر لاشیں نہیں اٹھائیں گے آسمان کو ہم پر رحم نہیں آئے گا۔عیاشی،بے راہروی،فحاشی،عریانی،ظلم و تکبر سے جب تک یہ زمین پاک نہیں ہوگی یہ آزمائش ختم نہیں ہو گی۔یہ وہ وجوہات ہیں جو وباؤں کا اسباب ہیں۔جس طرح ہم اپنا آنگن گندہ نہیں رکھ سکتے اسی طرح خالق کائنات بھی اپنی اس زمین کو پاک کرنے کے لیے انتظامات کرتا ہے۔اور جب اس کی جانب سے آزمائش اترتی ہے تو بدکاروں کے ساتھ ساتھ نیک بھی جاتے ہیں۔ویکسین کی تلاش کے ساتھ ساتھ ہمیں ان اسباب کا تدارک بھی کرنا ہے جن اسباب کی وجہ سے یہ وبائیں اترتی ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں