آدھی رات کو تمہیں اپنے خواب میں اداس دیکھ کر نیند سے بیدار ہوچکی ہوں۔ تنہائی اور لاچاری نے اپنا شکنجہ میرے جسم کے مضافات کی طرف مزید تنگ کردیا ہے۔ بےقراری کسی بچھو کی طرح جسم پر رینگ رہی ہے۔آنکھیں جو تمہارے ساتھ کے حسیں لمحوں کے خمار میں ہمہ وقت ڈوبی رہتی ہیں،آنسوؤں کی تپش سے جل رہی ہیں۔ میں نارسائی کے کرب اور تمہیں کھو دینے کی دہشت کی کیفیت میں رات کاٹنے پر مجبور ہوں کہ کہیں یہ ظالم رات تمہارے نقوش کو ان آنسوؤں کے ساتھ بہا کر نہ لے جائے جنہیں میں ہر صبح آئینے میں دیکھ کر دن کا آغاز کرتی ہوں۔ میرے پاس محفوظ تمہارا وہ آخری میسج جس میں تم نے مجھ سے والہانہ انداز میں اقرار محبت کیا تھا،اس کو پڑھتے پڑھتے آنکھیں تھکنے لگی ہیں۔ نہ جانے کب رات فجر کی آذانوں کی آواز کی سمت رینگ گئی۔
وہ رات جو تمہاری یاد کے مجہول کونوں کو کھودتے کھودتے صبح کی تلاش میں گزاری گئی تھی، اب چاند سے گرد کو کھرچتے کھرچتے امیدوں کے دیوں سے جل اٹھی ہے۔ سخن ور کی تلاش کا سلسلہ پھر سے اپنے عروج پر ہے۔میرے خوابوں کے جہان میں موجود قصہ خواں نجانے کب سے میری تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔وہ تمہارے وقتاً فوقتاً کیے گئے ،وعدوں میں موجود سچ اور جھوٹ کی شاخوں کو الگ کرتے کرتے درخت کی دشمنی مول لے بیٹھے ہیں،جو ہمیشہ تمہاری سردمہری کو تمہاری مجبوریوں سے منسلک کرنے کے در پہ رہتا ہے۔ کبھی کانٹوں پر بنائے گئے آشیاں میں بسنے والے مکیں سکھ کی کیفیت سے آشنا بھی ہو پاتے ہیں۔دل میں گھر بنا کر اس سے خون نچوڑنا اور پھر اس راہی کو کسی ایسے بیابان میں زندہ درگور کرنا جہاں اس کا سراغ ملنا نا ممکنات میں سے ہو ،محبوب کا وطیرہ ہی رہا ہے۔ اس تعلق نے مجھے یہ بات اچھے انداز میں باور کروا دی ہے کہ محبت کی مٹی کو ہمیشہ نارسائی کے پانی میں ہی گوندھا جاتا ہے اور اس کوزہ گری کے دوران خود کو فنا کر دینے کا لطف ہمیشہ عاشق کو ہی نصیب ہوتا ہے۔محبوب تو بس اس سارے عمل میں ایک تماشبین کا کردار ہی ادا کرتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں