ہم نفرت کے بیوپاری ہیں۔۔عارف خٹک

آجکل کافی یار دوست ہم لکھاریوں کو سلمٰی ستاروں کا دوپٹہ اوڑھا کر کیٹ واک کروا رہے ہیں۔ میرے قریبی دوست نے تو ریمپ پر بیس تیس نثرنگاروں، ادیبوں، بلاگرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں کے “دائیں بائیں” سے وہ ٹھمکے لگوائے ہیں کہ ابھی تک بیچاروں اور بیچاریوں کی کمروں میں چک پڑ گئی ہے۔۔
کسی بھی لکھنے والے کیلئے تعریف کے دو لفظ آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں۔ مگر بحیثیت پاکستانی قوم ہم فطری انتہاء پسند واقع ہوئے ہیں تو دو لفظ سے زیادہ ہم پر جب تک ‘واہ واہ” کے ڈھونگرے نہ برسائے جائیں تو ہمیں اپنا آپ ادھورا لگنے لگتا ہے۔ ہمارے انہی رویوں نے متوازن قاری کو ہم سے دور کردیا ہے۔۔
میں سوشل میڈیا پر موجود کافی سارے لکھاریوں کو جانتا ہوں، جو مخصوص گروہ بندیوں کا شکار ہیں۔ اگر آپ لیفٹ نظریات کے حامل ہیں تو سارے لیفٹ مل کر آپ کو اچک لیں گے۔ اگر آپ رائٹ نظریات کے حامل ہیں تو سارے رائٹ نظریات والوں پر آپ کا دفاع فرض ہوجائیگا،۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم سوشل میڈیا پر لکھنے یا پڑھنے واسطے نہیں موجود بلکہ افغان جہاد کے مجاہدین ہیں۔ ہمارے یہی روئیے ہمیں ایک مخصوص خول میں بند کردیتے ہیں اور ہمارے اچھے لکھنے والوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر آپ ملا، مذہب اور روحانیت کے مخالف ہیں تو آپ نہایت آرام اور بے رحمی کیساتھ سامنے والے کے جذبات کا قتل کر ڈالتے ہیں لہذا آپ کی وال پر مخصوص مجاہدین آکر آپ کو مزید شہہ دیتے رہتے ہیں اور آپ خود کو محفوظ اور اعلیٰ  وارفع سمجھنے کی سنگین غلطی کر بیٹھتے ہیں۔
یہی حال دوسرے گروہ کا بھی ہے۔ میں نے اسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شدید مذہبی اختلافات رکھنے والوں کو باہم شیروشکر ہوتے دیکھا ہے جو عام زندگی میں ایک دوسرے کا قتل عین ثواب سمجھتے ہیں مگر پہلے گروہ کی مخالفت میں وہ بھی آپس کے اختلافات بھلا کر متحد ہوجاتے ہیں کہ چلیں پہلے ملحدین کا صفایا ہو تو فارغ ہوکر اپنا صفایا بھی کرلیں گے۔۔
قاری کا کیا لکھوں! وہ لکھنے والوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ ان کیلئے بس یہی کافی ہے کہ ان کے پسندیدہ لکھاری نے جو فرمایا ہے وہ ٹھیک ہی فرمایا ہے اور مزید اس پر بات کرنا کفر کے زمرے میں آتا ہے۔اور کفر کرنیوالے کی سزا سر تن سے جدا کرنا ہے۔ اس خیال کی ترجمانی ہماری بسوں پر لکھے یہ جملے کرتے ہیں “پاس کر یا برداشت کر”،”ہارن دینا منع ہے”۔
ہم متشدد اور انتہاء پسند معاشرے کے پھلے پھولے لوگ ہیں۔ ہم نفرت، دشنام۔طرازی اور انکار کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ہمیں وقت گزاری کیلئے ہمیشہ ایک دشمن کی ضرورت رہتی ہے۔ خواہ وہ اسرائیل کی صورت میں ہو، ایران کی صورت میں یا سعودی عرب کی صورت میں۔ ورنہ بائیس کروڑ آبادی میں تو کافی سارے ہوں گے جن کیساتھ سینگ پھنسا کر ہم اپنا وقت بہترین گزار لیتے ہیں۔
میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس ریمپ پر موجود ہم سب “دوکاندار” ہیں جو دوکان کے تھڑے پر بیٹھ کر نفرت کو خوشنما ریپر میں باندھ کر بیچ رہے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ نفرت کا یہ سودا کوئی ہمارے اپنے گھر بھی پہنچا رہا ہے۔۔۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply