• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(تیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(تیسواں دن)۔۔گوتم حیات

ایٹمی دھماکوں کا شور تھما تو پاک و ہند دوستی کی باتیں ہونے لگیں۔ اس وقت مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ دو ملک کیسے آپس میں دوستی کرتے ہیں؟
ہندوستان کے وزیراعظم واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ وہ لاہور کے “مینارِ پاکستان” بھی گئے تھے۔ اُس وقت میرے اندر پاک و ہند کے درمیان ہونے والے امن کے اہم سنگِ میل کو سمجھنے کی استطاعت نہیں تھی۔ دو، تین دن بعد اخبار میں ایک تصویر شائع ہوئی، جس میں کچھ لوگ مینارِ پاکستان کے فرش کو دھو رہے تھے۔ میں نے اپّی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے، ایسا کیوں کر رہے ہیں ،یہ لوگ؟ ۔تو انہوں نے مجھے اخبار دیکھ کر بتایا کہ۔۔

“ہندوستان سے واجپائی آیا اور اُس نے مینارِ پاکستان پر بھی اپنے قدم رکھے تھے، وہ ہندو ہے، دشمن ملک کا ہے اس لیے یہ لوگ فرش کو پانی سے دھو کر پاک کر رہے ہیں، کیونکہ اس کے یہاں آنے سے جگہ ناپاک ہو گئی ہے”

واجپائی پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد واپس ہندوستان چلے گئے، کچھ دن حالات نارمل رہے اور پھر وہی جنگی فضا بحال ہو گئی، کشمیر آزاد کروانے کی باتیں ہمارے کانوں میں پڑنے لگیں ،اور اچانک ہی کارگل کا محاذ کھڑا ہو گیا۔

ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے ہم پہلی بار کارگل کے نام سے واقف ہوئے۔ یوں تو ہم ہر سال پانچ فروری کو کشمیر ڈے مناتے تھے۔ ایک بار ہمارے  سکول کے سامنے والی روڈ پر کشمیر سے اظہارِ یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بھی بنائی گئی تھی۔ اس وقت ہمیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ کشمیر میں حقیقی طور پر کیا ہو رہا ہے۔۔۔ سنی سنائی باتوں پر دیانتداری سے یقین کرتے ہوئے ہم کشمیری مجاہدین کے رومانس میں مبتلا ہو گئے۔ ان دنوں کشمیری مجاہدین کی مدد کے لیے چندے کی رسیدی کاپیاں کراچی سے مظفرآباد تک گردش کرتی تھیں۔ لوگ دل کھول کر کشمیری مجاہدین کے لیے چندہ دیتے تھے ،اکثر اوقات مساجد میں بھی اعلان ہوتا کہ۔۔
“ہم سب پر کشمیری مجاہدین کی مدد کرنا فرض ہے اور یہی سچّے مجاہدین بہت جلد کشمیر کو آزاد کروائیں گے”۔

کارگل کے محاذ پر جب کشمیری مجاہدین کے شانہ بشانہ کھڑے پاکستانی فوجیوں کی کامیابی کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو ہم اپنی آنکھوں میں آزادی کے خواب سجائے خیالوں ہی خیالوں میں پاکستان کی سرحدوں سے بہت دور نکل جاتے۔ ہم سب ہر روز اخبارات کے صفحات پر کارگل کے بارے میں تصویریں دیکھتے، اپّی کارگل کے بارے میں کوئی نہ کوئی اہم خبر ہمیں پڑھ کر سناتی۔ اب شہر میں کیبل ٹی وی کا آغاز ہو چکا تھا، لیکن ہمارے گھر پر کیبل نہیں تھی ، ہم لوگ سامنے والے گھر پر کیبل کی وجہ سے انڈین نیوز چینل کی خبریں دیکھنے جانے لگے، انڈین نیوز چینلز کارگل کی ایک الگ ہی تصویر دکھا رہے ہوتے، جس میں انڈین فوجی کامیابی سے ہر محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں ،جبکہ پاکستانی فوجی شکست سے دوچار ہیں۔ ہم پی ٹی وی اور انڈین نیوز چینلز کی خبریں دیکھ کر کنفیوز ہونے لگتے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، ہم نے تو ابھی پی ٹی وی پر یہ دیکھا تھا کہ پاکستانی فوج بہت آگے بڑھ چکی ہے مگر انڈین نیوز میں بتایا جا رہا ہے کہ ہندوستانی فوجی آگے ہیں اور پاکستان ابھی بہت پیچھے۔

ایک دن یہ معلوم ہوا کہ وزیراعظم نواز شریف امریکہ کے دورے پر روانہ ہوگئے ہیں، پھر جنگ بندی کی خبر آئی۔ ہم اس اصطلاح سے ناواقف تھے۔ ہمیں اپّی نے اخبارات کی روشنی میں بتایا کہ
“کارگل میں پاکستانی فوجیوں نے جیتا ہوا محاذ انڈیا کے حوالے کر دیا۔۔۔ وزیراعظم نواز شریف نے امریکہ کا دورہ کر کے پاکستانی فوجیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے”۔

ہمیں اس خبر سے دھچکا لگا کہ کیوں نواز شریف نے ایسا کیا۔۔ کاش وہ ایسا نہ کرتا تو ہم ابھی کارگل جانے کی تیاری کر رہے ہوتے۔ جیتا ہوا محاذ انڈیا کے حوالے کر دیا، یہ کیسا وزیراعظم ہے۔۔۔ (ابھی وہ وقت تھوڑا دور تھا جب مجھے نواز شریف کی حمایت میں جنرل مشرف کے آمرانہ دور کی کھل کر مخالفت کرنی تھی اور اس کے لیے یونیورسٹی کے قریبی دوستوں کو بھی اپنا دشمن بنانا تھا)۔
آہستہ آہستہ حالات معمول پر آنے لگے، ٹی وی اور اخبارات پر سے بھی جنگ کے گھنے بادل رخصت ہو چکے تھے۔

جنگ بندی کے بعد پی ٹی وی پر زوروشور سے کارگل کے محاذ پر شہید ہونے والے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں فنکاروں کے ساتھ ساتھ ملک کی اہم سیاسی، سماجی اور دفاعی شخصیات کے علاوہ شہید ہونے والے فوجیوں کی بیگمات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ہم نے ٹی وی پر خوشی اور افسردگی کے ملے جلے جذبات کے تحت یہ پروگرام دیکھا۔

اداکارہ ریشم نے خاکی وردی پہن کر ایک گانے پر پرفارم بھی کیا۔۔۔ گانے کے بول تھے۔۔
“کارگل کے شہیدوں کو میرا سلام”، خاکی وردی پہنے ہوئے ریشم مجھے بہت اچھی لگی تھی، اس وقت میں دل ہی دل میں یہ بات سوچ کر اداس ہو رہا تھا کہ کاش اگر ابھی وہ فوجی زندہ ہوتے تو ریشم کی یہ پرفارمنس دیکھ کر انہیں بھی خوشی ہوتی، شکر ہے میں زندہ ہوں اور ریشم کو دیکھ رہا ہوں۔

اداکارہ نرما نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی تھی، نرما نے جس گانے پر پرفارم کیا تھا اس کے بول تھے۔۔
“ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟؟
ہنستی گاتی، روشن وادی، تاریکی میں ڈوب گئی”

پروگرام میں بہت سے فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے مجھے ریشم اور نرما کے علاوہ کسی اور کے بارے میں کچھ یاد نہیں۔
ہم معمول کے مطابق  سکول جا رہے تھے، 14 اگست کے بعد 6 ستمبر کا بھی دن خیریت سے گزر گیا اور پھر ایک شام ہم نے ٹی وی چلایا تو اس میں چینل ہی نہیں آرہا تھا، ہم لوگ سمجھے شاید انٹینا خراب ہو گیا ہے، اس کو ہلایا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ٹی وی کی نشریات خود بخود آنے لگی۔ بار بار قومی ترانہ بجتا، اور پھر ملّی نغمات شروع ہو گئے، یہ سلسلہ ابھی جاری تھا، ہم لوگ ٹی وی پر ملّی نغمات سن ہی رہے تھے کہ ابّو گھر پہنچے اور انہوں نے بتایا کہ
“نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی ہے، فوج نے سب اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، شاید مارشل لاء لگنے کا اعلان بھی ہو جائے”۔

اُس رات مارشل لاء کا لفظ پہلی بار میں نے سنا تھا، میں سمجھا تھا یہ کسی آدمی کا نام ہے پھر مجھے اپّی نے بتایا کہ فوج جب حکومت کرتی ہے تو اسے مارشل لاء لگنا کہتے ہیں۔ فوجی وردی میں ملبوس نئے حکمراں کی تقریر مجھے سمجھ نہیں آئی تھی۔ اگلے دن ہم  سکول گئے تو ٹیچرز نے بتایا کہ اب سب کچھ بہت اچھا ہو جائے گا، فوج آگئی ہے ایک ایک کا احتساب ہو گا تو یہ چور بازاری اور افراتفری ختم ہو جائے گی۔

شروع کے تین، چار سال ہم نئے حکمراں کو وردی میں دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہوئے، ایک واقعہ بار بار ٹی وی اور اخبارات میں تواتر سے دوہرایا جانے لگا اور ہم اس کو سُن  سُن کر پکنے لگے۔ وہ واقعہ تھا “طیارہ سازش کیس”، اور پھر ایک نیا سلوگن ہمیں سننے کو ملا “سب سے پہلے پاکستان”۔

میرا کالج شروع ہو چکا تھا، 9/11 کے واقعے کے فوراً بعد حالات بدلنے لگے، افغانستان اور اسامہ بن لادن کی حمایت میں جلسے جلوس ہونے لگے۔ کالج میں زولوجی کی ٹیچر گلوگیر آواز میں ہمیں درس دیتی کہ
“یہ بہت بُرا وقت پاکستان پر آیا ہے، اب یہ آپ تعلیم یافتہ لڑکوں کا فرض ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان آرمی کا بھرپور ساتھ دیں، “سب سے پہلے پاکستان” نعرے کی عملی تفسیر بن کر دنیا کو دکھا دیں کہ ہم بہادر قوم ہیں، آپ سب مشرف کی بھرپور حمایت کریں کیونکہ پاکستان ہے تو ہم بھی ہیں”، کالج میں مجھے کسی نے بتایا کہ ان کے شوہر خود بھی آرمی میں ہیں اس لیے یہ ہمیں بھی وردی والوں کی طرف دھکیلنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔

آناًفاناً اخبارات کے  سٹالز پر اسامہ بن لادن کے بڑے بڑے پوسٹر بکنا شروع ہو گئے۔ مجھے ایک پوسٹر بہت اچھا لگا میں نے وہ خریدا اور اس کو پلاسٹک کوٹنگ کروا کر اپنے کمرے کی دیوار پر لگا دیا۔ اب میں ہر روز اسامہ بن لادن کا وہ پوسٹر دیکھ   کر خوش ہوتا اور اس کے لیے دعا کرتا کہ وہ افغانستان کے مسلمانوں کو امریکہ کے عذاب سے بچا لے۔ افغانستان کی حمایت میں شہر بھر کی دیواروں پر ایک نیا نعرہ لکھا جانے لگا ،میں جب بھی اس نعرے کو پڑھتا تو خوشی کا احساس ہوتا ،حالانکہ میں اس چیز سے بالکل ناواقف تھا کہ سوویت یونین میں کیا ہوا تھا۔ وہ نعرہ جس سے شہر بھر کی دیواریں بھر گئیں تھیں ،یہ تھا۔۔
“پہلے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کیا، اب امریکہ کی باری ہے۔۔۔ القاعدہ، اسامہ بن لادن ، طالبان زندہ باد، زندہ باد”۔

تو یہ وہ زمانہ تھا جب میں ان فریبی نعروں کے سحر میں مبتلا تھا!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply