اکیس اپریل (پہلی اور آخری سانس)۔۔محسن علی خان

لندن میں سورج سارا دن بادلوں سے آنکھ مچولی کرنے کے بعد جب نڈھال ہوا، تو بارش کی بوندیں اپنی فتح کا جشن منانے کے لئے مے فیئر کی زمین کی طرف روانہ ہوئیں۔ ہواؤں نے بھی پینترا بدلا اور فتح یاب لشکر کا ساتھ دیا۔ بارکلے اسکوائر پر جب ہواؤں نے بارش کی بوندوں کو خوش آمدید کہا تو دونوں کے بغلگیر ہوتے ہی بروٹن  سٹریٹ میں سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ مکان نمبر سترہ میں موجود افراد آتش دان کے پاس بیٹھ گے۔ پریشانی اور اضطراب سب کے چہروں پر نمایاں تھا۔

لارڈ گلیمس کبھی آتش دان کے پاس آتا کبھی دالان میں کھڑا ہو کر دوسرے کمرے کی طرف دیکھنے لگ جاتا۔ لارڈ کو اپنی چوتھی بیٹی انجیلا مارگریٹ سے بے حد محبت تھی۔ آج لارڈ کی بیٹی کے ہاں ولادت متوقع تھی۔ تیئس گھنٹے گزر چکے تھے، کمرے کا دروازہ بند دیکھ کر لارڈ بھی سورج کی طرع نڈھال ہوتا جا رہا تھا۔ لندن کے جراحی کے ماہر ڈاکٹر کو اپنی طرف آتا دیکھ کر لارڈ کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا۔ ڈاکٹر نے لارڈ گلیمس کے پاس آکے اپنا ہیٹ اتار کر محبت کا اظہار کیا، لارڈ کے خادم نے ڈاکٹر سے ہیٹ اور کوٹ پکڑ لیا جو کہ  بارش کی وجہ سے گیلے ہو رہے تھے اور لارڈ کی آنکھوں میں آۓ آنسوؤں کو دیکھا جس کی وجہ سے لارڈ کا چہرہ بھیگ رہا تھا۔ لارڈ نے ڈاکٹر کو اس کمرہ کی طرف اشارہ کیا جہاں انجیلا زندگی موت کی کشمکش میں تھی اور واپس آتش دان کی طرف چل پڑا۔

رات کے دو بج کر چالیس منٹ ہو چکے تھے، انجیلا مارگریٹ تیس گھنٹوں سے زندگی موت کی کشمکش جنگ لڑ رہی تھی۔ بارش کی بوندوں کی طرع بالآخر یہ جنگ مارگریٹ نے جیت لی اور زمین پر ایک ننھی شہزادی نے اپنی آنکھیں کھول کر اپنی فتح کا جشن منایا۔ یہ ننھی شہزادی آج کی ملکہ الزبتھ دوئم ہے۔

21 اپریل 1926 کو البرٹ فریڈرک آرتھر جارج اور الزبتھ انجیلا مارگریٹ بوز لیون جن کو کِنگ جارج ششم اور ملکہ الزبتھ اول کہا جاتا ہے ان کے ہاں ایک بیٹی کی ولادت ہوئی جس کا نام الزبتھ الیگزینڈرا میری ونڈسر رکھا گیا۔
21 اپریل 2020 کو ملکہ کی سالگرہ تھی، آج سے چورانوے (94) سال پہلے ملکہ الزبتھ نے اپنی پہلی سانس لی تھی۔

لاہور میں سارا دن سورج نے اداسی میں گزار دیا، نہ تو بادلوں نے آنکھ مچولی کی، نہ ہواؤں نے درختوں کے پتے ہلا کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ سورج چاہتا تھا بادل آ کر اسے ڈھانپ لیں، تاکہ کوئی اس کا غم محسوس نہ کر سکے، بادل چاہتے تھے سورج اُن کو اپنی شدت سے جلا ڈالے، تاکہ وہ پگھل کر لاہور کی میو روڈ پر اپنے آنسو برسائیں، ہوا کا دل تھا آج وہ زمین سے واپس آسمان کی طرف چلنا شروع ہو جاۓ، تاکہ آج کی شب حبس سے خود ہوا کا دم گھٹ جاۓ۔

رات نو بجے لاہور کی جاوید منزل میں ایک بچہ اپنے باپ کے دیدار کے لئے کمرے میں داخل ہوتا ہے، چارپائی پہ بیٹھا بزرگ باپ بچے سے محبت میں پوچھتا ہے تم کون ہو، بچہ اپنی معصوم آواز میں اپنا نام جاوید بتاتا ہے، بزرگ شفیق باپ کے لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے، آنکھوں میں اک موج اٹھتی ہے اور دل کے ساحل سے ٹکرا کر کہتی ہے، جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں۔
اسی اثناء میں ایک ننھی شہزادی بھی آکر اس شفیق بزرگ کے ساتھ لپٹ جاتی ہے اور ڈھیر ساری باتیں کرنا شروع ہو جاتی ہے، جیسے اپنی پوری زندگی کی سب باتیں بس آج ہی کے دن کرنی ہیں۔ باپ اتنی ہی توجہ سے باتیں سنتا ہے، پیار سے اپنی شہزادی کے بالوں کو سنوارتا ہے، باپ کے ہاتھوں کی شفقت کا لمس تھا کہ بیٹی باپ سے لپٹ کر سو جاتی ہے۔ باپ اپنی بیٹی کے پرسکون چہرے کو دیکھتا ہے اور اپنے دل کے راستے اپنے رب کو پکارتا ہے، جیسے اپنی بیٹی کی خوشیوں کے لئے سب دعائیں بس آج ہی مانگ لینی ہیں۔

کوٹھی کے صحن میں موجود افراد کے چہروں پر پریشانی اور اضطراب نمایاں تھا، تئیس گھنٹے گزر چکے تھے، ڈاکٹر بھی تھک ہار کر واپس جا رہے تھے، گھر میں موجود باقی افراد بھی نیم دراز حالتوں میں تھے۔ جب رات کی سیاہی مٹنا شروع ہوئی۔ تیس گھنٹوں سے جاری زندگی موت کی جنگ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ زندگی، موت کے ہاتھوں شکست کھا کر ہمیشہ کے لئے اَمر ہو گئی۔ دونوں بچے دالان میں آگئے۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا، بچے اندر داخل ہوۓ، کچھ دیر سکوت کا عالم رہا، پھر ایک دوسرے سے لپٹ گئے، آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں بہنے لگیں۔ ایک چارپائی تھی، جس پر ایک سفید روشنی تھی۔ پوری چارپائی اس سفید روشنی سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ہوا جو زمین سے روٹھ کر آسمانوں کی طرف گئی تھی، واپس آگئی، سفید روشنی کو آکر ہوا نے ادب سے چوم لیا، جاوید اور منیرہ نے آگے بڑھ کر اپنے شفیق باپ کا چہرہ دیکھا۔ آنکھیں بند تھیں، سواۓ نور کے کچھ نہ تھا۔

julia rana solicitors london

21 اپریل 1938 کو اس کائنات سے ایک عظیم شاعر ایک درد دل رکھنے والا بادشاہ اپنے رب کے حضور چلا گیا تھا، اس مقدس ہستی کا نام حضرت علامہ محمد اقبال تھا۔
21 اپریل 2020 کو اس مبارک ذات کا یوم وفات تھا، آج سے بیاسی (82) سال پہلے علامہ اقبال نے اپنی آخری سانس لی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply