سوشل میڈیا پر جا بجا مولانا طارق جمیل صاحب کے خلاف واویلا دیکھا تو سوچا مولانا کا بیان سن لینا چاہیے۔
کچھ دیر قبل مکمل بیان سنا،بیان ہر پہلو سے قابل تعریف تھا۔
جہاں موجودہ صورتحال میں جس نعرے کو قومی نعرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ “ہمیں کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے” اس پر قوم کی غلطی سدھاری، کہ وبا اللہ کی جانب سے ہوتی ہے اس سے لڑا نہیں جاتا، نہ ہی آسمانی آفات کے سامنے تکبر و غرور کا اظہار کیا جاتا ہے۔ (جیسا کہ نعرہ سے واضح ہے)
دوسری بات۔۔ قوم کو قرآن و حدیث کی روشنی میں وعظ و نصائح کیے۔
قوم میں پھیلے فحاشی، عریانی، حرام خوری، جھوٹ اور خیانت جیسے گناہوں سے آگاہ کیا اور اس سے بچنے کے لئے درد دل بیان کیا۔
الغرض مولانا نے اس وبا سے حفاظت کے لئے جہاں مادی حل بتایا وہیں روحانی حل کی طرف بھی رہنمائی کی، کہ ہمیں ہر طرح کی احتیاط کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
یہ تو تھا بیان کا خلاصہ!
اب سوشل میڈیا پر لوگ جن دو کمزور باتوں کو لے کر درجنوں قیمتی باتوں کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک رہے ہیں وہ دو باتیں یہ ہیں:
پہلی بات یہ کہ مولانا نے بائیس کروڑ کی آبادی کو جھوٹا، بددیانت کیسے کہہ دیا؟؟
مولانا کو یہ اتھارٹی کس نے دی ہے کہ وہ ہر ایک کے متعلق سچے یا جھوٹے ہونے کا فیصلہ کریں؟؟
مذکورہ سوال کا جواب تو اس قدر واضح ہے کہ ایک لمحے کو اس سوال کے اٹھانے والے کی عقل پر حیرانگی ہونے لگتی ہے۔محترم! جب کہیں قوم کا لفظ کہہ کر کسی قوم کی خوبی یا خامی بیان کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ اس قوم کا ہر ہر فرد اس خوبی یا خامی کا شکار ہے۔
جیسے اگر یہ کہا جائے فلاں قوم بہادر اور جفا کش ہے!اس کا یہ مطلب کبھی نہیں ہوگا کہ اس قوم کا ہر ہر شخص بہادر و جفاکش ہے، بلکہ ان کی اکثریت، ان کے حالات کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اب ہماری قوم میں جھوٹ، خیانت کس قدر عام ہے یہ ہمارے سامنے آفتابِ نیم روز کی طرح واضح ہے۔

دوسری بات یہ کہ مولانا طارق جمیل صاحب عمران خان کے حق میں تعریفی کلمات کیوں کہتے ہیں؟
اس کا جواب یہ کہ مولانا صاحب کو آپ جب بھی جج کریں تو ایک داعی کی حیثیت سے کریں، اور داعی کا اسلوبِ دعوت کیسا ہونا چاہیے ہر صاحب عقل شخص اس سے بخوبی واقف ہے۔
اس کے علاوہ آپ مولانا صاحب سے اس بات پر اختلاف رائے رکھ سکتے ہیں، لیکن اختلاف سلیقہ مندی کے ساتھ کریں، پندرہ منٹ کے بیان میں اگر کوئی ایک بات آپ کے مزاج کے خلاف اترتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ آستین چڑھا کر مولانا صاحب پر چڑھائی کر دیں۔
اور اس چڑھائی کے سلسلے میں آپ مولانا کی دینی خدمات اور ان کے بھلے کاموں کو بھی فراموش کر بیٹھیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں