سیاستدان: آج کی سیاست میں مذہب کشت و خون کا باعث ہے، قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کے سیاسی استعمال کی بیخ کنی کی جائے.
ملا: سیاسی لوگ نظریات سے بیگانہ ہوتے ہیں، اپنے سیاسی قد کاٹھ اور مسافت کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کے اذہان و ارواح پہ حکومتوں کے لیے ‘امیرالمومنین’ اور ‘شہید’ جیسے سابقے اور لاحقے استعمال کرتے ہیں.
سیاستدان: کیا بات کرتے ہو صاحب ؟ ہم نے جو “جمہوریت”،”حکومت”، اور”سرمایہ دارانہ معیشت” کی بساط واپس مانگی تو مسجد و گرجے سے باہر نہ آ پاؤ گے.
سماجی سائنس کی تحقیق میں تنوع کو سمجھنے کے لیے چونکہ کوئی حقیقی آزاد متغیر (independent variable) تو دستیاب ہی نہیں ہے جو علت و معلول (cause & effect) کے تعلق کو دیکھ سکے، اس لیے ارتباط (correlation) کی ضرورت پڑتی ہے جو اسے بہتر طور پر سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے. لیکن ایسے معاشروں میں، جہاں ناخواندگی، نسلی امتیازات، مسلکی تفاوت، معاشرتی ناہمواریاں، سول سوسائٹی، سیاسی عدم استحکام، اور غربت کا ننگا ناچ ہو وہاں یہی ارتباطی خوبصورتی ایک بدصورت لعنت کی شکل میں آشکار ہوتی ہے کیونکہ ہر پہلو دوسرے پہلو کے ساتھ گنجلک نظر آتا ہے نتیجتاً پیچیدگیوں کی گتھی سلجھائے نہیں سلجھتی اور معاشرہ “پاکستان” نظر آتا ہے.

وطن عزیز کے گوں نا گوں مسائل اگر ہمیں سمجھنے اور سلجھانے ہیں تو ہمیں تمام پہلوؤں اور تمام اداروں کے دائرہ کار کا میکانکی تعین کرنا ہو گا اور ان کو صرف اپنی اپنی vocabulary کے استعمال کی حد تک روکنا ہو گا، تب کہیں جا کر ہم مسائل کی تفہیم و تصحیح کرنے کے قابل ہو پائیں گے. مثال کے طور پر سیاسیوں کو بتانا ہو گا کہ قومی مفاد کی تعریف کیا ہو گی اور شخصی مفاد کس زمرے میں آئے گا؟ مذہبی مذہب کی بحث میں ہی مصروف نظر آئے گا اور وہ مغرب، ڈیمو کریسی، اور کیپٹلزم جیسی تشبیہات اور استعارے استعمال نہیں کر پائے گا. ریاستیں قومی ریاست کی جغرافیائی بنیادوں پہ سمجھی جائیں گی نہ کہ داعشی سوچ پر مبنی ہوں گی. سیاست سماجی مسائل کے بہتر حل کے مسابقتی بیانئے کی بنیاد پر ہو نہ کہ مذہبی یا مسلکی وابستگی پر. جو ادارہ ٹھوس اندرونی و بیرونی جغرافیائی استحکام و تحفظ کا ذمہ دار ہے وہ اپنا کام کرے. اور آخر میں صحافتی برادری رپورٹنگ کرے اور حقائق سامنے لائے نہ کہ سیاسی ایجنڈے کے تحت حکومتیں گرانے اور بچانے کا ذریعہ بنے.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں