آپ کو ایمل کانسی کا واقعہ یاد ہو گا جس میں ایک امریکی وکیل نے کہا تھا کہ۔۔ پاکستانی ڈالروں کے عوض اپنی ماں بیچ دیتے ہیں۔
امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی اچانک رہائی اور پاکستان کی قید سے امریکہ ترسیل کے واقعہ نے پاکستانی ایمل کانسی کے واقعہ کی یاد تازہ کر دی تھی۔ امریکی جس طرح پاکستان کومطلوب ریمنڈ ڈیوس کو دن دیہاڑے لے گئے، امریکہ کو مطلوب ایمل کانسی کو رات کی تاریکی میں پاکستان سے امریکہ لے گئے تھے۔
کیس یکساں ہے فرق صرف یہ ہے کہ ایک امریکی تھا دوسرا پاکستانی تھا۔ امریکی مجرم زندہ ہے پاکستانی مجرم منوں مٹی تلے کوئٹہ میں دفن ہے۔ ایمل کانسی نے ورجینیا میں سی آئی اے کے دو اہلکاروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔ ورجینیا سے نیو یارک پہنچا۔ پاکستان کی پرواز پکڑی اور اپنی سر زمین پہنچ گیا۔ سی آئی اے، ایف بی آئی اور دونوں ایجنسیوں کے مقامی باریش اور بے ریش ایجنٹ اس کی تلاش میں تھے۔ ایمل کانسی کبھی علاقہ غیر کبھی اپنے علاقہ میں چھپتا پھرتا رہا۔ اس دوران مقامی لوگوں سے رابطہ میں رہا، کچھ لوگ مستقل رابطے میں رہتے تھے ان میں سے ایک بزرگ نے ایک عورت کی مدد سے اسے ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل بلوا لیا۔ اگلے روز ملاقات طے تھی، اس رات ایف بی آئی کے اہلکار امریکہ سے ہیلی کاپٹروں میں ڈیرہ غازی خان اترے ہوٹل پر دھاوا بول کر ایمل کانسی کو لے گئے۔ چند لمحوں میں اندھیرے میں سب کچھ ہو گیا۔ ایک امریکی کے مطابق کانسی اندھیرے میں یلغار پر کچھ نہ سمجھ سکا اس نے زبان درازی کی تو اسے نیوٹرلائز کر دیا گیا۔ اس واقعہ سے قوم بے خبر سو رہی تھی، اس کے لیڈر سو رہے تھے یا شریک جرم تھے، کانسی کے سر کی قیمت10ملین ڈالر تھی۔ اس وقت پاکستان کے صدر تھے سردار فاروق لغاری، وزیر اعظم تھے میاں نواز شریف، امریکہ دونوں کی موجودگی میں اپنے مجرم کو ایسے لے گیا جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔ پاکستانی قوم اس وقت جاگی جب کانسی کیس میں امریکی عدالت میں امریکی وکیل نے کہا کہ ”پاکستانی ڈالر کیلئے اپنی ماں تک کو بیچ دیتے ہیں“۔ امریکی وکیل کے ریمارکس پر پاکستان میں طوفان کھڑا ہو گیا۔ الیکٹرونک میڈیا وارد نہیں ہوا تھا۔ قاضی حسین احمد نے اخبارات میں شعلے اگلنا شروع کر دیئے۔ کچھ اس قسم کے بیانات دیئے کہ امریکہ اب بچ نہیں سکے گا اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ امریکہ کو تہس نہس کر دیں گے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ امریکہ کا بال تک بیکا نہیں ہوا۔ ایمل کانسی کو سزائے موت دے دی گئی۔ وہ ہیرو تھا یا نہیں اس سے غرض نہیں۔ دو امریکیوں کے قاتل کا کوئٹہ میں تاریخی جنازہ نکلا۔ جس میں گورنر، وزیر، سیاستدان، تاجر، مولوی، اساتذہ، طلباءسب شریک تھے۔ کانسی کا جنازہ ہیرو کا جنازہ تھا۔ بلوچستان میں اس کی قبر بننا تھی۔ بلوچستان کی مٹی کی آغوش میں چلا گیا۔ اس کے بھائیوں نے کہا ہمیں کانسی پر فخر ہے اس نے امریکی ظالموں کو مارا ہے۔
لاہور میں امریکی قاتل کے ہاتھوں قتل والے والے نوجوان فہیم اور فیضان کے لواحقین نے امریکیوں اور ان کے پاکستانی ایجنٹوں کی مدد سے قوم کو اندھیرے میں رکھا۔ امریکہ میں قید قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی تک کو فریب دے دیا۔ فوزیہ صدیقی کے گھر فہیم اور فیضان کے بھائیوں نے جن کو جلوس کی شکل میں ایئر پورٹ سے گلشن اقبال لے جایا گیا یہ اعلان کیا کہ امریکہ میں 86 سال قید کی سزا پانے والی عافیہ کو رہا کرکے پاکستان واپس لایا جائے تو ریمنڈ ڈیوس کو معاف کر سکتے ہیں۔ اس سے کم کوئی آفر قبول نہیں کریں گے۔ ہم مسلمان ہیں، اپنی حرمت کی خاطر جان دے دیں گے، کوئی سودا نہیں کریں گے۔
یہ سب ڈرامہ تھا، اس ڈرامہ کے سارے کردار سامنے ہیں۔ قوم سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے، خواہ زرداری ہوں یا گیلانی یا شریف۔ اس سودے بازی کا جتنا دفاع بڑی مونچھوں والے راناثنا اللہ اور زیورات میں لدھی پھندی فردوس عاشق اعوان کر رہی تھی اتنا تو خود جان کیری نہیں کر رہے تھے نہ ہیلری کلنٹن کر رہی تھی دونوں محب وطن، پاکستانیوں نے امریکیوں کو مات دے دی ۔
سوچنے کی بات ہے کہ کیا واقعی ہم کوئی قوم ہیں۔
امریکہ کے معاملہ میں قوم جذباتی ہے
حکمراں جذباتی نہیں ہیں،
سیاستداں جذباتی نہیں ہیں،
بیوپاری جذباتی نہیں ہیں،
پاکستان کی حکومت اپوزیشن دونوں میں بیوپاری بیٹھے تھے۔
یہ ایسے بیوپاری جو گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرتے۔ ان کی کمپنیوں کو کارخانوں کو فونڈریز کو فیکٹریوں کو کبھی خسارہ نہیں ہوا۔ ”تخت لاہور“ نے امریکی مجرم کو امریکہ کے حوالے کر دیا۔ پنجاب کی پولیس جس کا بے رحمی میں کوئی ثانی نہیں دو ہفتوں سے فیضان اور فہیم کے لواحقین کی دیکھ بھال اور سہولیات فراہم کر رہی تھی۔ اس نے توقع سے زیادہ سرعت سے نتائج فراہم کر دیئے
جو اوبامہ چاہتا تھا۔شریف اور زرداری چاہتے تھے۔
زرداری نے نواز شریف کو مذاق میں بڑا بھائی نہیں کہا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کیس میں ”چھوٹے بھائی، کو بڑے بھائی، نے ریس کیو کیا ہے۔ اتنی مہارت سے کہ کوئی انگلی تک نہیں اٹھا سکتا۔
آج نون لیگ کے نظریاتی لوگ پریشان ہیں کہ نوازشریف نے آرمی ایکٹ کی بلامشروط حمایت کیوں کی ؟
اس نے تو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا،
خلائی مخلوق کے قصے سنایا کرتا تھا،
خلائی مخلوق کو بدنام کر کے الیکشن چرانے کی بات کیا کرتا تھا،
لیکن اچانک سب کچھ بدل گیا لیکن یہ بھولی قوم پھر بھی نہیں بدلے گی جب نوازشریف صاحب واپس آئیں گے تو پاگلوں کی طرح گاڑی کے آگے ناچ ناچ کے خود کو بے حال کرے گی،
میاں دے نعرے وجن گے۔۔
بھولی قوم سے بس اتنی گزارش ہے
کہ یہ سیاستدان نہیں ہیں
یہ بیوپاری ہیں
صرف آپ کو بیچ کے سرے محل خریدتے ہیں
ایون فیلڈز اپارٹمنٹ خریدتے ہیں
یہاں بس تقریر کر کے مداری کی طرح کرتب دکھاتے ہیں۔۔
اور ہم سردی میں گیدڑ کی طرح سارہ دن سورج کی طرف آنکھیں بند کر کے دھوپ سینکتے ہوئے یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کل سردی نہیں ہو گی۔
ذرا سوچیے کہ ہم ان سیاستدانوں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں جن بیچاروں کا تو کوئی قصور ہی نہیں،دراصل ہم خود قصوروار ہیں، ہم نے آج تک کوئی لیڈر بننے ہی نہیں دیا،بس ہمیشہ گیدڑوں کے غول کو سپورٹ کیا۔۔اللہ آپ سب کو خوشیاں عطا فرمائے
آمین۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں