ہماری قوم بھی عجیب “نفسیاتی” ہو چکی ہے۔ ترکی سے ایک ڈرامہ “امپورٹ” کیا گیا۔ سب سے پہلے تو ہمارے وزیر اعظم صاحبکو ضرورت پڑ گئی کہ اس کو ایک “ایشو” بنائیں جیسے اس کو سرکاری ٹی وی پہ چلا کہ کوئ جہاد کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیاپہ حق وباطل کی صف آرائی ہو گئی ، میدان فیس بک پہ دونوں اطراف سے پے در پے حملے ہو رہے ہیں ۔ مخالف اور حمائیتی ہررخ سے حملہ آور ہیں، فقہ میمنہ پہ ہے تو جمہوریت اور آمریت میسرہ پہ ۔ قلب میں لبرلز اور اسلامی ہیں ۔
تھوڑی بہت تاریخ سے دلچسپی رکھنے کی بنیاد پہ کہہ سکتا ہوں کہ “ارطغرل یا طغرل ” کا ذکر تاریخ میں ( جو ہمارےہاں پڑھی جاتی ہے) بہت کم ملتا ہے ۔ اس کا اور اس کے والد کانام ضرور ملتا ہے لیکن تفصیل زیادہ بیان نہیں کی گئی ۔ ارطغرل کا وجود اس لئے اہمہے کہ مسلمانوں کی 5 سو سال تک قائم رہنے والی خلافت کے بانی “عثمان” کا والد ہے ۔ ویسے تو بعض تاریخ دانوں نے اس نام“ارطغرل” کو بھی تسلیم نہیں کیا ۔ بلکہ عثمان کے والد کا نام “گندوز” بھی بتایا گیا ہے ۔ اسی طرح سے اس کے سلجوقی حکمرانوںسے تعلق بھی مختلف بتایا گیا ہے ۔ علاالدین کیقباد ان پہ مہربان ہوا اس پہ اتفاق ہے ، کچھ تاریخ دانوں نے سلیمان شاہ اورارطؑغرل کو کیقباد کی طرف سے ریاست کی دونوں اطراف بھیجنے کا ذکر کیا ہے ۔ سلیمان شاہ منگولوں کے خلاف اور ارطغرل کوبازنطینیون کے خلاف ۔ جس چیزپہ سب کا اتفاق ہے وہ یہ کہ عثمان کو “سوگت” کا علاقہ باپ سے ورثے میں ملا تھا اور وہیںسلطنت عثمانیہ کا آغاز ہوا۔
موجودہ ترکی ، جو سو سال کے بعد ایک دفعہ پھر اسلامی عہد رفتہ کے سحر میں مبتلا ہو رہا ہے اور ان کو ہونا بھی چاہیے کہ انہوں نے500 سال خلافت عثمانیہ کے نام سے تین براعظموں میں حکومت کی ہے۔ وہ حق بجانب ہیں کہ خلافت کو ہم برصغیر والے نہیں بھلاپارہے جو ان کی خلافت کے ڈائریکٹ زیر اثر بھی نہیں رہے تو وہ کیسے بھول جائیں جو حکومت کرتے رہے ۔ 100 سال تک فوجیجرنیلوں نے ماڈرن ترکی کے نام پہ اسلام کو دبائے رکھا ۔ زیادہ دور کی بات نہیں نوے کی دہائی میں نجم الدین اربکان کی بیوی کےسکارف پہن کے اسمبلی میں جانے پہ ہنگامہ ہو گیا تھا۔ ان کو یہ منظور نہ تھا کہ ان کی اسمبلی میں کوئی اسلامی حلیے کا شائبہ بھی نظرآئے ۔ اس کے سر سے سکارف نوچ لیا گیا ۔ لیکن ان بیس پچیس سال میں ترکی دوبارہ سے اسلام، خلافت اور مسلم امہ کی طرف جاتا نظر آرہا ہے ۔
ترکی کے دماغ اپنے سنہری دور کو عوام کے سامنے گلیمرائز کرکے پیش کر رہے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے بالکل صحیح کردار کاانتخاب کیا ۔ “ارطغرل” کا ۔ کیوں کہ اس کردار کے بارے میں واضح ثبوت کم ہیں تو “افسانے” کی گنجائش زیادہ ہے ۔ ذہنیاختراعات کے لئے میدان وسیع ہے ۔ اس کا بھرپور استعمال کر کے انہوں نے فلم کی بہت بڑی آڈئینس کو متوجہ کیا ہے ۔ نہصرف اسلامی ممالک میں بلکہ اس سے باہر بھی لوگوں کو اس نے متاثر کیا ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اسلام اور مسلمانجو صرف “دہشت گرد” سمجھے جاتے ہیں ان کا مثبت چہرہ بھی غیر مسلم دنیا یا “دنیا” تک پہنچے ۔
کہانی میں تخیل اور مصالحہ کا استعمال بے دریغ کیا گیا ہے ۔ کہانی کو اتنا کھینچا گیا کہ بہت لوگ اس کی طوالت کی وجہ سے ہی اسکو چھوڑ گئے ۔ لیکن کرونا کی وبا اس ڈرامے کے لئے نیک شگون ثابت ہوئی ۔ لوگوں کے پاس اتنا وقت تھا کہ 90، 90 اقساط کاایک ایک سیزن دیکھ سکیں ۔ اب ایسی خوش قسمتی اگر کسی کو مل جائے تو اس کے ساتھ حسد کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ہالی ووڈ اور ایچ بی او جیسے ایفیکٹس تو اس میں نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہمارے جیسے ممالک سے بہت بہتر انداز میں اس کو بنایا گیاہے ۔ ہارس رائڈنگ، ایریل ویو، بیک گراونڈ میوزک، ایکٹنگ اچھی ہے ۔ ابن عربی کے کردار کے ذریعے بھاری باتیں بھی قابلقبول انداز میں بیان کی گئی ہیں۔
اب آئیے ہماری قوم کے اس ڈرامے کی حمایت میں اور مخالفت میں کھڑے ہونے کی وجوہات کی طرف ۔ تکینیکی، مذہبی، فرقہوارانہ، ریاستی، طرز حکومت، غرض مختلف امراض کی بنا پہ محبت اور نفرت کا اظہار ہو رہا ہے۔ خالصتا تکنیکی لوگوں کو کہانی میںجھول، اور افسانوی انداز پہ اعتراض ہے ۔ “ارطغرل” کے دیومالائی کردار پہ اعتراض ہے، دشمن کے محل میں گھس کے بندےچھڑا کے لے جانا ، امیر کو تڑی لگا کے بچ نکلنا غیرحقیقی اور “سلطان راہیانہ” لگتا ہے ۔ ہے بھی سہی ۔ لیکن انہی لوگوں کو “جانسنو” کے دل میں گھسنے والے خنجر پہ زندہ ہو جانے پہ کوئی اعتراض نہیں ۔ “ولیم ویلس” دشمن بادشاہ کے گھر میں رنگ رلیاں مناکے آ جائے تو ہم غیرحقیقی کا شور مچانے کی بجائے اسے دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ ملنے پہ تالیاں بجاتے ہیں ۔ پھر بھیاعتراضات بجا ہیں، اس کو “شاشینک ری ڈیمپشن ” سمجھ کے نہ دیکھیں تو تکلیف کم ہو گی ۔
سب سے نازک صورتحال مگر مذہبی بنیادوں پہ جنگ لڑنے والوں کی ہے ۔ “ارطغرل” مسلمانوں کی پانچ سو سالہ خلافت کے بانی کاوالد بزرگوار ہے ۔ مسلمانوں کی یہ خلافت ہمارے لئے باعث فخر ہے کہ مسلمان بھائیوں نے اتنی ترقی کی ۔ لیکن وہ کوئی مذہبیرہنما یا پیشوا نہیں جس پہ تنقید کو ہم اسلام کی کسی شق پہ اعتراض سمجھیں۔ خلافت عثمانیہ مسلمانوں کے جاہ و جلال اور کامیابی کانشان ہو سکتا ہے ، اللہ معاف کرے اسلام نہیں ہے ۔ اسلام کسی خاندان کی حکومت کا یا کسی خلافت کا محتاج نہیں ۔ اسلام کوزندہ رہنے کے لئے تو خود اسلام کو تباہ کرنے والوں کے گھروں سے وارث مل جاتے ہیں ۔ اس لئے اس دین حق کو کسی“ارطغرل” یا حکومت سے اس طرح جوڑنا اس کی اہمیت کو کم کرنا ہے ۔ اسلام نہ تو اس خلافت کے دم سے زندہ تھا اور نہ اسکے بعد ختم ہو گیا ۔ اس لئے اس کو کفر و اسلام کی جنگ سمجھ کے سوشل میڈیا پہ جہاد نہ کریں ۔ اور گالیوں کو ارطغرل کی تلوارسمجھ کے تو بالکل بھی استعمال نہ کریں ۔
ان مجاہدوں کی مخالفت میں کھڑے ہیں وہ امن پسند جن کو “اسلام” کے نام کے ساتھ الرجی ہے ۔ یہ ہم مسلمانوں کی وہ بھیڑیںہیں جو غیرمسلموں کے آگے دوڑنے کے لئے ہر دم تیار ہیں ۔ خوف زدہ اور ترٹھے ہوئے لوگ جن کو صرف اعتراض یہ ہے کہاسلام کے حوالے سے اس کو دیکھا ہی کیوں جا رہا ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن کی اکثریت “میرا جسم میری مرضی” کی حامیہے وہ ڈرامے میں دکھائے گئے رومانوں حصے پہ معترض ہیں ۔ وہ اسلام کے اس “سخت ” چہرے کے سامنے آنے سے خوفزدہ ہیں ۔ان کو لگتا ہے کہ اس ڈرامے میں دکھائی جانے والی جنگ وجدل اور خون خرابے سے کہیں پھر باقی دنیا یہ نہ سمجھے کہ ہم ظالم ہیں ۔یہ تاریخ سے منہ موڑنے والی بات ہے جس قوم نے بھی دنیا پہ حکومت کی ہے اس نے علم اور طاقت کے زور پہ کی ہے امنپسندی سے نہیں ۔
ایک مسئلہ “خلافت ” کا ہے ۔ اس میں خلافت کو پروموٹ کیا جا رہا ہے ۔ خلافت کے حامی تلواریں نکال چکے ہیں کہ اس کے بغیرمسلمانوں کا کوئی حال نہیں ۔اسی میں اسلام کی بقا ہے ۔ مخالف کا خیال ہے کہ یہ دھوکہ ہے ۔ سراب ہے، امامت ایک اسلامینظام ہے لیکن خلافت نہیں ہے ۔ شک یہ بھی ہے کہ اس ڈرامے میں خلافت کو پروموٹ کر کے صدارتی نظام کی طرف رخ موڑاجائے گا ۔ آمریت پسندوں کو ارطغرل کے کندھے پہ سٹار بڑے واضح نظر آتے ہیں اس لئے وہ واری صدقے جا رہے ہیں ۔جمہوریت پسندوں کو اس سین میں اپنی موت نظر آتی ہے جس میں ارطغرل اپنے “بے ” کو ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ سوارطغرل چل گیا پاکستان میں تو اگلا الیکشن نہیں بلکہ ” پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الالللہ ، اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو ہاں پہ مہرلگاییں” ہو گا۔ اس لئے اس کے خلاف ابھی سے آواز بلند کرو۔
یہ مسئلہ مختلف ملکوں کی سیاست کا بھی ہے ۔ ارطغرل ترکی کا ہے اور ترکی اور شام کی آپس میں جنگ ہورہی ہے، ترکی اور سعودیہکی آپس میں خلش ہے ۔ ابھی شکر ہے محمد بن سلیمان کو فلم کی طاقت کا اندازہ نہیں ہوا ۔ جیسے ہی ہو گا تین طرفہ جنگ شروعہوگی ۔ اس وقت سے اللہ بچائے۔
آخر میں صرف یہ عرض ہے کہ یہ ایک “ڈرامہ ” ہے بزنس بھی ہے اور اپنی سوچ کو پھیلانے کا ذریعہ بھی ہے ۔ اس کو برائےمہربانی ڈرامہ سمجھ کہ دیکھیں ۔ نہیں پسند آتا تو بھی کوئی نہیں، چلے گا ۔ پسند ہے تو دوسروں کی گردن پکڑ کر دیکھنے پہ مجبور نہ کریں ۔انجوائے کریں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں