ایک صاحب کہنے لگے ،قبل از اسلام صحرائی عرب میں اتنے بُرے حالات بھی نہیں تھے۔ یہ یقیناً کثرتی معاشرہ تھا جس میں خواتین بااختیار تھیں۔ اسلام سے قبل عرب ایک مادر سری معاشرہ تھا جہاں خواتین مضبوط اور خودمختار تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدیجہ قبل ا زاسلام عرب کی ایک کامیاب کاروباری خاتون تھیں۔
میں نے جواب دیا کہ ،یہ کامل سچ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو عرب پانچ ہزار سال تک صحرا تک کیوں محدود رہے؟ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس کی جنگ یرموک، قادسیہ اور فتح مصر سے پہلے کی کوئی مستند تحریری تاریخ موجود نہیں ہے۔
کچھ بھی نہیں ۔ کوئی یادگار نہیں ہے – کسی قابل ذکر چیز کے نشانات نہیں ملتے – اسے رب الخلی کے نام سے جانا جاتا ہے، خالی جگہ،حتی کہ عثمانیوں نے بھی خود کو صرف حجاز تک محدود رکھا اور باقی جزیرہ نما کو سعود رشیدیوں اور دیگر قبائل کے مابین خانہ جنگی پر چھوڑے رکھا۔
یہ جسٹینی طاعون کی مہلک وبا تھی جس نے مکہ کی تجارتی اہمیت کو بحال کیا۔ کیسے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
جسٹینین (مشرقی رومن سلطنت) حکمرانوں کے ظلم و ستم ،وبائی امراض اور سپہ سالاروں کی لگاتار فتوحات وہ وجوہ تھیں جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ جسٹینین دور کے ظلم و ستم پر مبنی اعمال اور طاعون کی وباء ان میں اہم ترین تھے۔ اسے قسمت کا لکھا کہیے یا کچھ اور، کہ پیغمبر اسلام کی ولادت سے تھوڑا پہلے جسٹینی طاعون کی مہلک وبائی بیماری نے مکہ والوں کو انکی کھوئی ہوئی تجارتی حیثیت واپس لوٹا دی۔ ماضی میں مکہ یمن سے تجارت میں زمینی راستے پر ایک اہم پڑاؤ ہوا کرتا تھا ، اگر طاعون کے خوف سے بحیرہ احمر میں ان تجارتی جہازوں پر پابندی عائد نہ کی جاتی جنھوں نے تقریبا ً یہ کاروبار مکہ والوں سے چھین لیا تھا تو مکہ کی حیثیت بیکار ہی رہتی، (مکہ 460-540 کے درمیان اپنی تجارتی اہمیت کھو چکا تھا)۔
یہ بیماری غالباً سنہ 541 میں ستمبر کے وسط میں سکندریہ میں پہنچی تھی۔ اس بیماری کے پھیلاؤ کے تدارک کے لئے جب جسٹینی حکومت نے بحیرہ احمر کے راستے تجارتی بحری جہازوں کے سفر پر پابندی عائد کردی تو مکہ کی اہمیت یکایک بڑھ گئی۔ اسے تقدیر کا کھیل کہیے کہ اسلام کے آغاز سے پہلے اس مہلک طاعون کی وجہ سے یمن اور شام کے ساتھ تجارتی زمینی راستہ دوبارہ بحال ہو گیا جس سے مکہ کی حیثیت ایک اہم پڑا ؤ کے طور پر بحال ہوگئی۔ جسٹینی حکومت کی جانب سے بحری سفر پر عائد یہ پابندی عشروں تک جاری رہی جس کے نتیجے میں یمن کا زمینی تجارتی راستہ بحال ہوا۔
سنہء 541 سے 542 کے درمیان آنے والا یہ جسٹینی طاعون حقیقی معنوں میں ایک انتہائی تباہ کن خطرہ تھا جس نے انسانیت کو لاچار کردیا۔ اس مہلک وبا نے دنیا کی آبادی کے تقریباً چالیس فیصد حصے 100 ملین افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ طاعون سے متاثرہ چوہے تجارتی جہازوں میں چھپ کر ایک سے دوسرے ملک یہ بیماری پھیلا رہے تھے۔ یہ بحری تجارت ہی وہ ذریعہ بنی جس نے چین سے افریقہ اور بحیرہ روم تک اس مہلک بیماری کو پھیلا دیا۔ بازنطینی سلطنت اس طاعون سے کافی زیادہ متاثر ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام سنہء 569 میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنے چچا ابو طالب (اپنے دادا عبد المطلب کی وفات کے بعد) کے ساتھ سنہء 578 میں ملک شام کا پہلا تجارتی سفر کیا اور سنہء 594 میں وہ حضرت خدیجہ کے پہلے تجارتی قافلے کو بصرہ لے کر گئے ۔
بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس طاعون کے خوف سے اگر زمینی تجارتی راستے بحال نہ ہوئے ہوتے تو شاید حضرت خدیجہ سے تجارتی معاملات بھی ممکن نہ ہوتے۔ افریقہ یا عرب سے ہندوستان تک کے بحری سفر میں بہت سارے پڑاؤ آتے تھے جو کافی صدیوں تک عربوں کے استعمال میں رہے ، بازنطینی بحری جہاز آکسومائٹ سلطنت کا تجارتی سامان وصول کر کے بحیرہ احمر کی بندرگاہوں تک لے جایا کرتے تھے۔ پروکوپئیس کی روایت کے مطابق طاعون کی مہلک وباء پلوسئیم سے مغرب میں اسکندریہ تک اور پھر بتدریج مصر کے باقی حصوں سمیت مشرق میں فلسطین تک پھیل گئی۔
بہرحال 1460 سال پہلے جو کچھ بھی رونما ہوا اس نے مثبت نظم و ضبط اور توانائی کی وہ خاص مقدار جاری کی جس نے فقط 40 سالوں میں بازنطینی ساسانی اور مصر جیسی عظیم سلطنتوں کو تاراج کر کے اسلام کو وسطی ایشیاء تک پھیلا دیا ،جس کی بدولت دنیا کے 1.4 بلین افراد آج خود کو مسلمان کہلواتے ہیں۔
آپ یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ بازنطینی شام اور ساسانیوں پر فتح سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟ دیکھیے ایک تو ان جنگوں میں فتوحات کی وجہ سے ساسانی سلطنت اور مشرقی بازنطینی سلطنت ایک نظام کے تحت اکٹھا ہو گئیں لیکن سب سے اعلی فائدہ یہ ہوا کہ فاتحین نے ان تہذیبوں کے علم کے پورے ذخیرہ کو جمع کر کے محفوظ کر لیا جو نہایت ہی عقل و دانش پر مبنی فعل تھا۔
علم طب جس میں صحرائی مسلمانوں نے کار ہائے نمایاں انجام دئیے اس کی جڑیں مدینہ یا مکہ کی بجائے ساسانی سلطنت کے فکری دارالحکومت میں تھیں جو کہ گنڈیشاپور جیسے عظیم سائنسی ادارے کا مسکن بھی تھا۔ عرب صحرا سے نکلے تو وہ ایک صاف تختی کی مانند تھے ، وہ تنگ نظری کی بجائے لچکدار اور تصریف پذیر رویوں کے حامل تھے ، انھوں نے ان بازنطینی، ساسانی اور ویدک تہذیبوں کے مثبت اثرات کو جذب کیا جنہیں انہوں نے فتح کیا تھا، بازنطینی اور ساسانی تہذیبوں نے اس مخلوط ثقافت کے قیام میں مدد کی جسے اسلام کے سنہری دور کا پیش رو کہا جا سکتا ہے۔
عربوں نے ساسانیوں کی کشادگی کو اپنایا وہ آج کے سیاسی اسلام کی طرح پیچیدگی کا شکار نہیں تھے۔ پیغمبر اسلام کی آمد سے دو صدی قبل سنہء 491 میں اڑیسہ میں قائم نیسطوریائی مذہبی اور سائنسی مرکز کو بازنطینی شہنشاہ زینو نے بند کرنے کا حکم دے دیا تھا ، تو یہ منتقل ہو کر انسان دوست فارسی حکمرانی کے زیر انتظام خوزستان صوبہ کے شہر گنڈیشاپور میں مکتب نسبس کے نام سے قائم ہو گیا۔
یہاں علماء نے سنہء 529 میں جسٹینی حکمران کے حکم پر ایتھنز سے جلاوطن ہونے والے لادین فلسفیوں کے ساتھ مل کر علم طب ، فلکیات اور ریاضیات میں نمایاں تحقیقات کیں۔ ساسانی بادشاہ خسرو اول ( 531–579 عیسوی) جو انوشیروان “لافانی” کہلاتا تھا (یونانی اور رومی اسے کوسروس کے نام سے جانتے تھے) کے دور حکمرانی میں گنڈیشا پور طب اور علم کے لئے مشہور تھا۔ خسرو اول نے بازنطینی سلطنت کے مذہبی ظلم و ستم سے تنگ آ کر فرار ہونے والے بہت سے یونانی فلاسفروں اور نسطوری آشوریوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔
ساسانی سلطنت سنہء 638 میں مسلم عرب فوجوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو گئی۔ رب الخلی کے بنجر علاقوں سے نکلنے والے فاتحین کا سامنا بازنطینی ، ساسانی اور ویدک تہذیبوں کے علم کے بیش قیمت خزانوں سے ہوا ، جو اب مفتوح کی حیثیت سے نئے فاتحین کے سامنے کھلے پڑے تھے۔
ناخواندہ مسلمان فاتحین نے نظم و نسق سنبھالنے میں مقامی دانشوروں کی مدد لی ، اس عمل میں انہیں یونانی تعلیم کو سمجھنے کا موقع ملا ۔ اس زمانے میں مغرب کی یونانی علم سے شناسائی نہ ہونے کے برابر تھی۔
یونانی زبان سمجھنے والے عربوں نے اس علم کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا۔ سکندر اعظم کی فوجوں کے ذریعہ ہیلینسٹک ثقافت کو مشرق کی طرف پھیلایا گیا تھا ، لہذا در حقیقت یہ ایک طرح کا “تعلیمی جہاد” تھا جو جدید سائنس میں خواندگی اور تعلیم کے حصول کے لئے تمام مسلم ممالک کے درمیان ایک مہم کی حیثیت رکھتا تھا۔
ابتدائی مسلمان عظیم اسکالرز تھے جنہوں نے ریاضی اور دیگر سائنسی علوم میں عبور حاصل کیا تھا ۔ مسلمانوں کو یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ علم کے بیج کو پھلنے پھولنے کے لئے انہیں خود میں رواداری اور عقلیت پسندی جیسی اقدار دوبارہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کی تبدیلی کی باوجود گنڈیشا پور اکیڈمی بچ گئی اور اعلی تعلیم کے اسلامی ادارے کی حیثیت میں کئی صدیوں تک برقرار رہی۔ بعد ازاں عباسی دارالحکومت بغداد میں اسکے مقابلے پر ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ سنہء 832 میں خلیفہ المامون نے مشہور بیت الحکمت (حکمت کا گھر) کی بنیاد رکھی تھی۔
اس طرح کے کتنے تصورات بچ جانے اور مزید وسعت پانے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ تلوار یا بغیر تلوار یا گھڑ سواری کا مسئلہ نہیں ہے، بات یہ ہے کہ یہ قبائلیت کے ساتھ پروان چڑھی اور ساسانی ، بازنطینی ، مصری اور ویدک ثقافتوں کو فورا ہی وسیع الذہنی و قلبی سے اپنے اندر ضم کر لیا اور جب دوسری تہذیبیں اپنے تاریک ادوار سے گذر رہی تھیں اس نے فارابی ابن سینا اور ابن رشد جیسے عظیم فلاسفرز تیار کیے۔
یہ ایک مثبت پہلو ہے ورنہ اسلام سے پہلے کی صحرا کی آزادی سے کیا فائدہ ہوا تھا جس نے انہیں بدووں کی حیثیت سے 5000 سال صحرا تک محدود رکھا۔ میں عذر خواہ نہیں ہوں ، لیکن میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اس فکر کا احترام کرنے کی ضرورت ہے لیکن اسکے ساتھ ہی مومنین کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ‘ زینے پر قدم بڑھا کر دنیا کے ساتھ مل جل کر رہنے کا وقت آگیا ہے۔ ‘یہ وقت اس بات کا اعلان کرنے اور عمل درآمد کرنے کا ہے کہ ‘ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ میں آتش نو بھڑکانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، شاید میں بزدل طبع ہوں !
انکی کیا حقیقت تھی اور وہ کس ایک شاندار تہذیب میں تبدیل ہو گئے، یہ بذات خود آگے بڑھنے کی جانب ایک بہت بڑا قدم تھا ،یاد رکھئیے تاریخ کا فیصلہ اپنے نقطہ نظر کی عینک لگا کر نہیں کیا جاتا۔ ہم 1.4 بلین افراد کو مذموم کرکے کیا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں؟ ہمیں انہیں ساتھ ملا کر چلنے کی ضرورت ہے، ہمیں بقائے باہمی کے نئے دور پر اولین خود قائل ہونے کی ضرورت ہے، آپ گفتگو کی ابتدا یہ کہہ کر نہیں کر سکتے کہ تمھاری ساری تاریخ ہی غلط ہے، کیونکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چِیر گیا نالۂ بے باک مرا
پیرِ گردُوں نے کہا سُن کے، کہیں ہے کوئی
بولے سیّارے، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا، نہیں! اہلِ زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رِضواں سمجھا
مجھے جنّت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں