• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • “پہلاتبلیغی دورہ “چندایک یاداشتیں( تیسری قسط)۔۔۔علیم رحمانی

“پہلاتبلیغی دورہ “چندایک یاداشتیں( تیسری قسط)۔۔۔علیم رحمانی

قارئین ! چونکہ بہت سے احباب قبلہ کریمی صاحب کے محاسن شریف کے  صفا چٹ ہونے کاراز جاننے کے لئے بے چین ہیں اور بعض نوجوان توسسپنس سے تنگ آکر باقاعدہ ماردھاڑ پہ لوگوں کواکسارہے ہیں سو ہم اس راز سے پردہ اٹھاہی دیتے ہیں۔

توبزرگو اور جوانو! راوی ( دروغ برگردن راوی والے) کہتاہے کہ قبلہ کریمی صاحب کے اباحضور حکیم تھے یاجوانی میں خودانہیں حکمت کی سوجھی اور کسی بیماری کے لئے اباحضور یاخودکا بنایاہواکوئی معجون مزید کسی دوائی سے ملاکے نوش جان فرمایاتھاجس کے بعدآہستہ آہستہ ان کے بال جھڑنے لگے ،یہاں تک کہ ان کے جسم پہ کوئی بھی بال نہ بچا ،حتی کہ بھنویں بھی  صفاچٹ ہوگئیں ،یوں وہ مکمل فارغ البال ہوگئے مگر الحمد للہ علمی میدان میں وہ بال کی کھال اتارنے کے اب بھی ماہر اورتبلیغی امور میں کافی متحرک ہیں، ایسے علما  ہمارے ماتھے کاجھومر اور مکتب کی شان ہیں، جن کے پاس نہ بڑی گاڑیاں ہیں نہ جاگیرداراور سیٹھوں سے تعلقات، نہ فن خطابت رکھتے ہیں اور نہ وہ لوگوں کوگھیرنے کاگُرجانتے ہیں اور نہ ائیرکنڈیشن ہالوں میں انقلاب بپاکرنے کادعویٰ  کرتے ہیں مگروہ پوری طرح اپنی شرعی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں اور اپنے اخلاص اور علم کی بنیاد پہ معاشرے میں گراس روٹ لیول پہ دین کی تبلیغ وترویج کافریضہ چپکے سے اداکرتے رہتے ہیں ۔چنانچہ معاشرے میں ہمیں جہاں جہاں دین کے آثار نظر آتے ہیں وہ ایسے درویش منش علمائے کرم کی محنت شاقہ کانتیجہ ہیں۔
(اللہ تعالی قبلہ کریمی صاحب کو جوان دنوں سخت علیل ہیں صحت وتندرستی عطافرمائے)

دوستواور بزرگو !
اب ہم دوبارہ چلتے ہیں اس اوپن ائیر امام بارگاہ میں جس کی مشکل سے 4 فٹ دیواروں سے راستہ چلتے لوگ جھانکتے گزر رہے ہیں اوراندر چاردیواری میں ہم دری پہ بغیر کسی تکیہ وچادر کے سونے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ مبلغین کی تعداد کم ہورہی ہے کیونکہ کچھ توبھٹ شاہ اور اس کے مضافات میں رہ گئے اور کچھ حضرات مٹیاری اترگئے ہیں جبکہ بعض کی جگہ پہلےسے ہی معین ہے وہ صبح ہوتے ہی چلے جائیں گے۔

اذان صبح کے ساتھ ہی ہمیں بیدار ہونے کاحکم ملااور یہ طے پایاکہ قدم گاہ مولاعلی ع سے متصل مسجد میں نماز فجر اداکی جائے گی یوں سب کچی پکی گلیوں سے گزر کر وہاں پہنچ گئےاور نمازفجر اداکی اور صحن مسجد میں کچھ دیر آرام کیا،واپسی پہ مولاناغلام رضاسریوال صاحب نان چھولے اور چائےکا ناشتہ لے کرپہنچ گئے۔ ناشتے کے بعد سے ہمارااصل امتحان شروع ہواکیونکہ جن کی جگہیں طے تھیں وہ توچلے گئےاورجورہ گئےان میں سےبھی اکثر طلبا  اور مبلغین پہلے بھی آتے رہے تھے اور وہ عمامہ اور عباقباوغیرہ سے مجہز ومسلح تھے جبکہ ہمارامعاملہ بالکل غالب والاتھاکہ ان کےتو بعد مرنےکے گھر سے چند تصویر بتاں اور چندحسینوں کے خطوط نکلے تھے، جبکہ ہمارے توجیتےجی بیگ سے تین جوڑے کپڑے چندایک کتابیں اور صرف ایک جالی دار ٹوپی ہی نکلنی تھی، جوصرف اپنے پہننےکے لئے تھی سو اس لحاظ سے ہم بالکل نہتے تھےاورہمارے آنے کی جہاں جہاں اطلاع ملی تھی وہاں کی مجالس اور امام بارگاہوں کے ذمہ دار آتےاور معمم خطیب اورجناح کیپ سے مسلح مبلغ کوہی لے کر چلے جاتے جبکہ ہمارے پاس صرف ایک نماز والی جالی دار ٹوپی تھی وہ بھی اس لئے رکھی ہوئی تھی کہ ہمارے استاد محترم قبلہ شیخ مختاراحمد کاشفی مدظلہ العالی کی کلاس میں یہ پہنناضروری تھاجو ہمیں لمعہ اصول پڑھاتے تھے اور پڑھانے کاحق اداکرتے تھے ان کی شفقت کے سائے تلے ہمیں تین سال جامعہ تعلیمات اسلامیہ میں گزارنے کاموقع ملاجو میری زندگی کے بہترین ایام میں سے ہیں اللہ میرے استاد محترم کوعمر خضر عطافرمائے۔

بہر حال یہ ٹوپی صرف پہننے کےلئے تھی جبکہ عام طورپہ پہنانے والے کی واہ واہ ہوتی ہے اور ویسے بھی مجالس کے لئے جالی دار ٹوپی پہننے کی کوئی ریت نہیں اور ایسے ٹوپی پوشوں کوعام مومنین کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے معممین اور جناح کیپ والوں کے روانہ ہوتے ہوتے دوپہر تک امام بارگاہ میں ہم صرف تین طلبا  رہ گئےتھے۔۔۔ہم اب سینٹر سے توناامید ہوچکے تھے اور واپسی کی پلاننگ کررہےتھے کہ مولاناغلام رضاسریوال تشریف لائے اور یہ مژدہ سنایاکہ آپ تینوں کے لئے جمالی گوٹھ حیدرآباد میں سینٹرکاانتظام ہوگیاہے آئیے میں وہیں آپ کوچھوڑ آتاہوں ،انہوں نے  ہمیں رکشےپہ بٹھایاجس کاکرایہ بھی انہوں نے خود اداکیااور آدھ گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد ہم جمالی گوٹھ کی مسجد میں موجود تھے جو کسی حدتک آباد اور ستھری نظر آرہی تھی،مولاناہمیں کسی مخمورباریش بزرگ کے حوالے کرکےرخصت ہوگئے،جن کے بارے میں پتہ چلاکہ وہ اس مسجد کے متولی ہیں اورمجلس میں ذاکری بھی فرماتے ہیں مگر ان کی مخمور آنکھوں سےیوں لگتاتھاکہ وہ ذاکری کم اور نشہ زیادہ کرتے ہیں جس کی تصدیق بعد کے واقعات سے ہوگئی۔

یہاں تک ہمیں تبلیغی راہ کی مشکلات کاکوئی اندازہ نہ تھالیکن یہاں سےہمیں قدم قدم پہ عجیب تجربات اور آزمائشوں سے گزرناپڑاجن کی تفصیلات آئندہ اقساط میں بیان کی جائیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply