چین کے مسلم اکثریتی صوبے ژنجیانگ میں قرآن کی تعلیمات حاصل کرنے والے 37طلبہ اور ایک استاد کو حراست میں لے لیاگیا،یہ خبر ہالینڈ کے ایک اخبار نے دی ہے۔
خبر کے مطابق چینی خبر رساں ادارے ژینوانے لھا ہے کہ جرمنی میں قائم ایک بین الاقوامی ادرے کی ایک خاتون رکن کو اپنے تعلیمی ادارے میں قرآن پاک پڑھانے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔
چینیپولیس نے چھاپے کے دوران 37طلبہ و بھی حراست میں لے لیا ہے۔
جن کی عمریں سات سال سے بیس سال تک ہیں۔
پولیس نے چھاپے کے دوران قرآن پاک کی مختلف کاپیاں اسلامی کتب و دیگر اسلامی مواد اور اسلام پر مبنی کیسٹ بھی ضبط کرلیے ہیں۔چینی حکام نے اس کارروائی کو ذاتی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملکی آئین کے عین مطابق ہے
انہوں نے چھاپے مارنے اور 37طالبعلموں کو حراست میں لینے کی وجوہات نہیں بتائیں۔
ادھر ژنجیانگ صوبے کے جلاوطن مسلمانوں کی عالمی تنظیم نے چینی حکومت کو وارننگ دی ہے کہ وہ آگ سے نہ کھیلیں،انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گرد اور دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف مذہبی ظلم و ستم اور تہذیب کو کچلنے والی چین کی اس مہم نے اس سارے علاقے کو ایک ٹائم بم میں تبدیل کردیا ہے۔جلا وطن ایفور کانگریس نے اے ایف بی پر پابندی،رسم الخط و لسانی بین،معاشی و تہذیبی استحصال،ماحولیاتی توڑ پھوڑ،اور نسلی امتیاز کی پالیسیوں نے مشرقی ترکستان و چینی ترکستان میں ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔چینی ترکستان رفتہ رفتہ ایٹم بم میں تبدیل ہورہا ہے۔یا کردیا گیا ہے۔۔۔۔
کانگریس کا یہ بیان ژنجیانگ پر چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی اور کمیونسٹ پارٹی کی سالانہ کانگریس میں مندوبین کی آمد کے موقع پر جاری کیا گیا ہے۔
چین کا یہ صوبہ ژنجیانگ جو ماضی میں مشرقی ترکستان کے نام سے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے جانا جاتا رہا ہے،اب چین کے زیرِ تسلط ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی زیادتیوں کے نتیجہ میں چین کے خلاف مسلمانوں کے جذبات سارے چین میں شدید سے شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔یہاں ترکسی زبان بولنے والے 80لاکھ مسلمان بستے ہیں۔اگرچہ یہ صوبہ 1955سے اخلی طور پر خود مختار ہے،لیکن چین حکام اس صوبے کی ثقافت و تہذیب کو بار بار اپنی کارروائیوں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔یہ ساری کارروائی دہشت گردی کو کچلنے کے نام پر کی جارہی ہے۔مغربی پریس نے اس صوبے میں انتہا پسندی کو فروغ دینے میں پاکستان اور بالخصوص آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کو ملوث بتایا تھا۔جس کی اس ریٹائرڈ جنرل نے تائید یا تردیدنہیں کی تھی۔
حال ہی میں مغربی پریس نے پاکستان میں چین کی حامی لابی کے ایک کالمسٹ کا بیان بھی نقل کیا ہے،جس میں بتایا گیا ہے کہ لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار (اردو)جو اپنی انتہا پسندی کی پالیسیوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے،اس اخبار نے کسی کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں موصوف لکھتے ہیں کہ”صرف عوامی جمہوریہ چین واحد ملک ہے جس نے چینی ترکستان میں نا صرف مسلم ثقافت ہی کو زندہ رکھا ہے بلکہ وہاں تاجیکی یا چینی ترکستان میں بولی جانے والی زبان کے اسی سکرپٹ نستعلیق کو جاری رکھا جو ماؤ کے انقلاب سے پہلے رائج تھا جو آج بھی وہاں رائج ہے”۔
اخبار کے مطابق یہ دروغ گوئی کی ایک زندہ مثال ہے،جبکہ چین کے سیاسی،سماجی،ثقافتی مقاصد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،اخبار آگے چل کر لکھتا ہے کہ چین کے بانی ماؤزے تنگ نے مشرقی یا چینی ترکستان کے عوام سے انہیں حق خود اختیاری اور بھرپور آزادی دینے کا وعدہ کیا تھا،لیکن 1955سے آج تک یہ وعدہ ایفا نہیں کیا گیا۔جس کے نتیجے میں یہ صوبہ چین کی نوآبادی بن چکا ہے،اور مسلمانوں کی ثقافت کو ختم کرنے اور تیل و گیس کے بہت سے ذرائع پر مشتمل قدرتی وسائل کا معاشی استحصال کا سلسلہ جو آج بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
ژنجیانگ۔۔بہت سے احباب اسے سنکیانگ لکھتے ہیں،میں مختلف ترک قبائل آباد ہیں،اس لیے اسے ترکستان کہاجاتا ہے،ترکستان تاریخی علاقوں کو کہاجاتا ہے،جو تبت،برصغیر ہندو پاک افغانستان و ایران کے مابین شمال میں واقع ہے،ماضٰ میں اس کی سرحدیں بحیرہ کپیسٹی اور اب ژنجیانگ اور مغربی حصۃ روسی ترکستان کہلایا،جس میں سابق سوویت یونین کی ریاستیں شامل تھیں،جو اب خود مختار ہیں مگ ژنجیانگ ہنوز بدقسمت ہے۔
چین میں اسلامی اثرات کی ابتدا تاتاریوں کی ایک اخ اویفور نے اسلام قبول کرکے کی،مشہور مورخ ابن الاشیر نے مسلم سپہ سالار اور اقتبہ بن مسلم اور شاہ حسین کے درمیان نامہ و پیام کی تفصیل لکھی ہے،قتیبہ نے فتح چین کا بھی ارادہ کرلیا تھا،لیکن دمشق میں خلیفہ ولید کے انتقال کے بعد اسے واپس آنا پڑا،اس نے ایک وفد چین کے دربار میں بھیجا جس کے سردار نے بادشاہ سے کہا کہ ہماری قوت کا ایک وقت مقرر ہے،ہم اسے برا نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس سے ڈرتے ہیں،
اور یوں چین میں مسلمانوں کی آمد شروع ہوئی،چین کے بادشاہ شیوجیونگ کے زمانے میں بہت سے اویفور مسلمانوں نے چین میں مستقل رہائش اختیار کرلی اور مقامی عورتوں سے شادیاں کیں،جیسے مغلوں نے ہندوستان میں آنے ے بعد مقامی راجاؤں ے خاندانوں میں شادیاں کیں اور اپنے پاؤں مضبوط کیے،تاریخ بتاتی ہے کہ نا صرف مغل بلکہ ابراہیم لودھی کی دادی بھی ہندو تھی،بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے۔
ژنجیانگ کی مجموعی حالت ان دنوں کوئی خوشگوار نہیں،چینی اسے اپنا سائبریا کہتے ہیں۔
بالعموم چینی قیدیوں کی سخت سزا بھگتنے کے لیے یہاں بھیجا جاتا ہے۔جس کاانتظام براہراست چین کی مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے،جو امن کی عامہ کی ذمہ دار ہے،یہاں کے مسلمان اپنی قید پوری کرلیں تو بالعموم انہیں اپنے گھر کو واپس جانے کی اجازت نہیں دی جاتی،تاوقتیکہ کہ ان کے آبائی شہر یا علاقے کی میونسٹ پارٹی کی منظوری نہ مل جائے۔
یہی وجہ ہے کہ چینی قیدی رہائی کے بعد ژنجیانگ ہی کے علاقے میں بمعہ اہل و عیال آباد کردیا جاتا ہے
اس طرح چین نسل کے ہزاروں غیر مسلم باشندے آباد ہوتے جارہے ہیں۔جس کے نتیجے میں مستقبل میں ژں جیانگ صوبہ مسلم اکثریت کے صوبے کا درجہ کھودے گا۔
چین وعرب ہمارا،ہنودستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے،سارا جہاں ہمارا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں