PREDESTINATION AND FREEWILL کا فلسفہ بہت اہم مسائل میں سے ہے۔اس مسئلے کی نوعیت یہ ہے کہ انسان اپنے ارادے اور فعل میں کس حد تک آزاد ہے.
اس مسئلے کا آغاز واقعہ کربلا کی وجہ سے ہوتا ہے جب امام حسین کو بنو امیّہ نے شہید کیا تو تو ان کی ساکھ خراب ہو گئی۔ بنو امیہ کی حکومت اس وقت مدینہ سے روس، چین، مالدیپ، افریقہ تک 22.5 مربع میل تک پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے علما کی ایک جماعت بنائی اور انہیں مختلف جگہوں پر روانہ کر دیا ، وہ ہر ایک سے یہ باتیں کرتے تھے کہ یہ امام حسین کا شہید ہونا اللہ کی مرضی ہے، یہ قسمت میں لکھا ہوا تھا۔ اس میں ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ اس میں بنو امیہ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت محمدﷺ نے بنو امیہ سے کہا تھا کہ مجھے تمہاری پشت سے اپنے خون کی بو آتی ہے۔ تو بنو امیہ کہتے تھے کہ یہ سب پہلے سے تقدیر کا لکھا تھا۔ ان جماعتوں کا نام ”جبریہ فرقہ“ پڑ گیا۔ اس واقعے سے تقدیر کا مسئلہ شروع ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں نے اسکے الٹ رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے مل کر ایک رسالہ نکالا اور تقدیر پرستی کے خلاف دلائل دیے۔ اس پر کسی کا نام نہیں ہوتا تھا۔ انہیں ”رسائل اخوان الصفا“ کہا جاتا تھا۔ یہ عربی کا لفظ ہے جسکا معنی ہے Brotherhood of purity اس فرقے کا نام “قدریہ”پڑا۔
یہ دونوں فرقے اپنے حق میں دلائل پیش کرتے رہے۔ قرآن میں مختلف آیات ہیں۔
جبریہ کے دلائل
اگر اللہ علیم خبیر ہے تو اسکا مطلب ہے کہ وہ مستقبل کا علم رکھتا ہے۔ اور اگر وہ میرے مستقبل کا بھی علم رکھتا ہے تو میرے اختیار کا کوئی مطلب نہیں۔
(القمر ٤٩)”ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا کیا“
( الانعام٢٠) ”وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پید کیا پھر ایک وقت کا فیصلہ کیا۔“
(الطلاق ٣٠) ” اللہ تعالی نے ہر چیز کیلئے ایک اندازہ بنایا ہے“
(البقرہ ٧) ” مہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے“
(النحل ٣٦) ”اور ہم نے بھیجے ہیں ہر امت میں رسول کہ بندگی کرو اللہ کی اور بچو سرکشی سے سو کسی کو ہدایت دی اللہ نے اور کسی پر ثابت ہوئی گمراہی، سو پھر زمین میں تو دیکھو کیسا ہوا انجام جھٹلانے والوں کا“۔
اہلِ جبر ان آیات کی تاویل اپنے مقصد کے مطابق لیتے تھے۔
قدریہ کے دلائل
(العنکبوت ٧) ”اور جو ہماری بات میں کوشش کرتے ہیں البتہ ان کو ہم راستہ سمجھاتے ہیں“
(النجم ٣٩۔٤٠) ”اور انسان کیلئے نہیں لیکن وہی جس کیلئے اس نے کوشش کی اور بیشک اس کی کوشش دیکھی جاۓ گی“
(حم السجدہ٤٦)اور جس نے نیک کام کیا تو اپنے لئے کیا، جس نے برا کام کیا تو اپنے لیے کیا ،اور تیرا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔“
(الکہف ٢٩) تو جو چاہے ایمان لے آۓ اور جو چاہے کافر بن جاۓ“
(الدھر ٣)” ہم نے اس کو سجھائی راہ یا حق مانتا ہے اور یا ناشکری کرتا ہے“
اور متعدد جگہوں پر اللہ فرماتے ہیں کہ مردوں کا وہ حصہ ہے جو انہوں نے خود کمایا اور عورتوں کو وہ حصہ ہے جو انہوں نے خود کمایا۔ تمہارا نصیب وہ ہے جو تم اپنے ہاتھوں سے کرتے ہو۔
ماڈرن فزکس اس کا کیا جواب دیتی ہے؟
ماڈرن فزکس تھیوری آف ٹائم لائن theory of time line پیش کرتی ہے۔ اس تھیوری کے مطابق پہلے سے ہی کسی کی تقدیر میں بہت سی لامتناہی ٹائم لائنز ہوتی ہیں۔ یہ ٹائم لائنز لہر waves کی شکل میں ہوتی ہیں اور یہ سنگل نہیں ہوتی ہیں۔ انسان بھی ایک لہر کی صورت ہے۔ موجیں ہیں۔۔ انسان ایک ٹائم لائن چُنتا ہے پھر چاہے تو کوئی اور چن لے۔ اس پر انسان کا اختیار ہوتا ہے۔ یہ بائی چانس یا بائی چوائس کسی بھی طریقے سے چنی جاتی ہے۔ ٹائم لائین بدلی جا سکتی ہے تو یہ تقدیر نہ ہوئی بلکہ اختیار ہوا اور پھر جو چن لی جاتی ہے تو اس کو نہیں بدلا جا سکتا یہ تقدیر ہے۔
کچھ چیزیں قسمت میں فکس کر دی جاتی ہیں مثلاً کہ پيدائش ، وفات، شادی ، اولاد، رزق۔
ہم اس ٹائم لائن میں جو بھی کریں وہ ہمارا اختیار ہے مگر جو چیزیں فکس ہیں تو اس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔
اقبال کہتے ہیں کہ
تو اپنی سرنوشت کو اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامہ حق نے جبیں تری
Facebook Comments
Great article