انسان اپنے وجود کے حصار میں مقید ہے۔ وہ اس قید سے رہائی چاہتا ہے۔ اس کے لیے نت نئے طریقے سیکھتا ہے، نئے نئے کلیے ایجاد کرتا ہے، مراقبوں اور ورد وظیفوں کی ڈکشنریاں مرتب کرتا ہے، ان کی← مزید پڑھیے
ہر تعلق کی ایک وجہ ہوتی ہے، اگر وہ وجہ ختم ہو جائے تو تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ وہ تعلق جو اللہ نے بنائے ہیں، وہ ختم نہیں ہوتے، کیونکہ اللہ کی ذات ایک ایسی وجہ ہے جو ہمیشہ← مزید پڑھیے
شکر ادا کرنے والا اِس اَمر کا اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنے حاصل کو نعمت سمجھتا ہے، اپنے زورِ بازو کا نتیجہ نہیں۔ وہ اپنے حاصل کو اپنے استحقاق سے وَرا جانتا ہے۔ متشکر — متکبر نہیں ہوتا— متواضع← مزید پڑھیے
نعت ایسے موضوع پر لکھنا، بولنا اور یہاں تک کہ سوچنا، ایک سرمایہِ سعادت ہے— ایک کارِ گراں مایہ ہے — اور اس کارِ گراں مایہ میں شامل ہونا دراصل خود کو مقصدِ تخلیقِ کائنات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔← مزید پڑھیے
شاعر نے کہا تھا— اور شاعروں کو تلامیذ الرحمٰن بھی کہا جاتا ہے: زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہورِ ترتیب موت کیا ہے؟ انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا یہ کلیہ ، یہ مشاہدہ ظاہری زندگی ہی پر موقوف نہیں، بلکہ← مزید پڑھیے
میرے ایک عزیز کل ہی مجھے بتا رہے تھے کہ ان کے ایک بھتیجے یورپین سفارتخانے میں کام کرتے ہیں، کہنے لگے کہ وہ بتاتا ہے، گورا ہر غلطی برداشت کرلیتا ہے، لیکن جھوٹ معاف نہیں کرتا۔ میں اپنے عزیز← مزید پڑھیے
تبصرہ … شکوہ و شکائت کی تمہید ہے، اور تنقید … اس پر مہرِ تصدیق! شکوہ … دراصل انسان کی توقعات کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر انسان، انسانوں سے توقعات ہی کم وابستہ کرے تو شکوہ و شکایت← مزید پڑھیے
ظاہر پرست آنکھ عروج کے کسی سفر کی شاہد نہیں ہو تی۔ مادّہ پرست فکر طائف کے سفر کی عظمت سے آگاہ نہیں۔ کسے خبر تھی،طائف کا سفر معراج کے سفر کا ابتدائیہ ٹھہرے گا۔ طائف کا سفر لطائف کا← مزید پڑھیے
دل کی گہرائیوں میں، روح کی پہنائیوں میں …. روشنی بکھیرنے کے اسباب، نسبت کے چراغ ہوا کرتے ہیں۔ کس کو کس سے کیا نسبت ہو جاتی ہے …. کہ وہ کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ ….← مزید پڑھیے
سعادت ازلی ہے۔ شقاوت تک انسان خود پہنچتا ہے۔ سعادت معصومیت ہے۔ معصومیت سے فرار انسان خود اختیار کرتا ہے۔ خود ساختہ اصلاحِ احوال انسان کو معصومیت کی سعادت سے محروم کر دیتی ہے۔ اصلاح کے نام پر فساد مفسدوں← مزید پڑھیے
ہمارے دیرینہ دوست نما شاگرد، عادل فاروق نے ایک سوال بھیجا۔ وہ سوال آج کے کالم کا محرک ٹھہرا ہے۔ لکھتے ہیں … انگریزی میں ہی لکھتے ہیں، انگریزی کے باکمال شاعر ہیں … میں اس کا ترجمہ پیش کر← مزید پڑھیے
انسان عجب ہے۔ ہر وقت اور ہر مقام پر فرار کی راہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ سکون ملے تو مصروف ہونا چاہتا ہے، مصروف ہو تو سکون حاصل کرنے کی تمنا کرتا ہے۔ ذکر میں سکون ہے، لیکن یہ ذکر سے← مزید پڑھیے
انسان اس دنیا میں اکیلا آیا ہے اور اکیلے ہی اس نے چلے جانا ہے، لیکن یہاں اسے انسانوں کی سنگت میں رہنا ہے، اور بسر کرنا ہے۔ انسان کی تمام اخلاقی تربیت کا محور و مرکز یہی نکتہ ہے← مزید پڑھیے
غلامانہ ذہنیت کے حامل اس حریت و آزادی کے تصور سے خائف ہیں جو ہر انسان کے اندر فطرت نے ودیعت کر رکھا ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے۔ خلافِ فطرت کسی عمل کا جواز اسلام میں ڈھونڈنا ایک بدترین علمی← مزید پڑھیے
تہذیبِ نفس نہ ہو تو تہذیبِ فکر پیدا نہیں ہوتی۔ تہذیبِ فکر نہ ہو تو ترتیبِ عمل قائم نہیں رہتی۔ ترتیبِ عمل میں استقامت، کسی کو صاحبِ مقام بناتی ہے۔ عمل میں ترتیب اور تسلسل سے کردار تشکیل پاتا ہے۔← مزید پڑھیے
یہ دیکھنا لازم ہے کہ آخر پانی کہاں مر رہا ہے۔ قرآن ایسی جامع کتابِ ہدایت کے ہوتے ہوئے، امام الانبیاء محمد مصطفیﷺ کی تابناک سیرتِ طیبہ ایسی اسوہِ حسنہ کے موجود ہوتے ہوئے، امت مسلمہ ذلت و پستی کے← مزید پڑھیے
ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ ہم بحیثیت مجموعی عبادات کی طرف راغب قوم ہیں۔ یہاں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اپنے اپنے عقائد کے مطابق رسوم عبادات کا خوب اہتمام کرتے ہیں۔← مزید پڑھیے
اگر عجلت اور تیز رفتاری اچھی بات نہیں تو سستی اور سست روی بھی کوئی ایسی قابلِ ستائش بات نہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنا، کوئی کام شروع کرنے میں ہچکچاتے رہنا، تذبذب ہی میں تسکین پان۔۔ اور← مزید پڑھیے
خوشبو کردار کی ہوتی ہے، ذائقہ ایمان کا ہوتا ہے۔ اس شخص کا اس دنیا میں آنا اور جانا کچھ معنی نہیں رکھتا، جس نے ایمان کا ذائقہ نہیں چکھا اور جسے کردار کی خوشبو میسر نہ آئی۔ اس مادی← مزید پڑھیے
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا یہ قول اقوال کی دنیا میں دانائی کا شاہکار ہے۔ اس پر جتنا غور کیا جائے، معانی کی نت نئی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ اس کی تفہیم تک پہنچنے کے لیے لازم ہے← مزید پڑھیے