جب بمباری سے آسمان پھٹ گیا جب زمین نے زندہ انسانوں کو نگل لیا جب پناہ گاہوں کے مکیں آگ کی نذر ہو گئے جب شہروں کو ملبہ بنا دیا گیا جب بستیوں کو نیست و نابود کر دیا گیا← مزید پڑھیے
یا رب آیا ہے یہ ناچیز تیرے حضور، لے کر فقط اک التجا درد سے آنکھیں میری اشکبار، دل ہے یاس میں ڈوبا ہوا بلک بلک کے تڑپ رہا ہوں میں، رقص بسمل سے دے رہا ہوں صدا الزام ہے← مزید پڑھیے
راجر فلنٹ! ایک خوبرو نوجوان،ایک دولت مند گھرانے کا لڑکا۔ ما ں باپ، اور لڑکے کا ایک ہی نصب ا لعین تھا کہ آئی لیگ ivy league کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ ملے۔ جہاں صرف سالانہ ٹیوشن فیس پچاس ہزار← مزید پڑھیے
وہ ایک مکان خستہ حال مکان غیر قانونی آباد کاروں سے گھرا ہوا مکان کئی مرتبہ ان آباد کاروں نے مکان کو نقصان پہنچایا اس مکان کے مکینوں کو بھی ڈرایا دھمکایا ستایا تاکہ یہ فلسطینی خاندان یہاں سے بھاگ← مزید پڑھیے
سیاہی، روشنائی، دوات آج یہ لکھنے کے لئے میرے قلم کی مدد نہیں کر سکتے اور اسے ان کی ضرورت بھی نہیں ہے مجھے کوئی سمجھائے کہ معصوم بچوں کی چیخوں کو کیسے قلمبند کروں ملبے میں دبی ہوئی آہ← مزید پڑھیے
میں آ گیا ہوں میری آواز سنو مجھ پہ اعتبار کرو میرا کہا مانو کچھ اور صبر کرو میں نجات دہندہ ہوں میں فصلِ گلِ لالہ ہوں میں تمہاری دعاؤں کا نتیجہ ہوں میں لاکھوں میں ایک ہوں ہزاروں سال← مزید پڑھیے
اے ارض فلسطین اے مقدس خاک، اے نبیؤں کی زمین اے خون میں نہائی ہوئی زمین بتا مجھے، بتا کب بجھے گی تیری پیاس کب آئے گا تجھے چین کب تیرے بچے کھیلیں گے تجھ پہ بے فکر کب تیری← مزید پڑھیے
آج میں گھنٹوں اپنے کھلونوں کے ساتھ باہر کھیلتی رہی۔ آج بھی سکول بند تھا، میرا چھوٹا سا سکول، میرا پیارا سکول۔ یہ تو اب تقریباً بند ہی رہتا ہے، بس کبھی کبھی کھلتا ہے کچھ دنوں کے لئے اور← مزید پڑھیے
اعلان ہوا کہ شہر کو آزاد کرا لیا گیا ہے، دشمن کو مار بھگا دیا گیا ہے، بارودی سرنگیں شہر کا ہر کونہ ہر عمارت چھان چھان کر نکال دی گئیں ہیں۔ سخت جان مگر نرم چہرے کی حامل چالیس← مزید پڑھیے
ذرا خیال سے اُڑنا، ادھر نہیں آنا۔ کیوں؟ تم اب میرے اِدھر اُدھر اڑنے پہ پابندی لگاؤ گے! پابندی نہیں بھئی۔ بس یہ ایک درخواست ہے کہ اس طرف نہیں آنا۔ تمہیں پتا ہے کہ میں کتنا حسین و جمیل← مزید پڑھیے
مجھے ضرورت نہیں ہے، مجھے ضرورت نہیں ہے اِس نئے نظام کی، اُس پرانے نظام کی نہ انتخابات کی نہ سیاسی جماعت کی نہ کسی شعبدہ بازکی نہ نئےامتحانات کی نہ ان کے منشوروں کی ،نہ ان کے نعروں کی← مزید پڑھیے
زندگی میں کتنا ٹھہراؤ تھا! آہستہ آہستہ رواں دواں زندگی کوئی مسئلہ نہیں، کوئی پریشانی نہیں لیکن ذ ہن کہیں کھویا ہوا اور جسم ہمیشہ تھکا ہوا یہ بے چین سوچیں اور ٹوٹتے ہوئے انگ نہ پھولوں کی مہک، نہ← مزید پڑھیے
دو ہاتھ ایک دوسرے کو تھامے ہوئے ایک ہاتھ دوسرے کو سہارا دیے ہوئے محبت، الفت ، سب کچھ ایک دوسرے کے لئے ایک ہاتھ تیزی سے سرد ہو رہا تھا گرم ہاتھ نے سرد ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ← مزید پڑھیے
زندگی میں کتنا ٹھہراؤ تھا! آہستہ آہستہ رواں دواں زندگی کوئی مسئلہ نہیں، کوئی پریشانی نہیں لیکن ذ ہن کہیں کھویا ہوا اور جسم ہمیشہ تھکا ہوا یہ بے چین سوچیں اور ٹوٹتے ہوئے انگ نہ پھولوں کی مہک، نہ← مزید پڑھیے
وینو، دودھ، وینو۔ یہ تکون پریتی کا سر پھاڑ کے رکھ دے گی۔ ایک وینو روتا ہے کہ وہ دودھ نہیں پیے گا اور دوسرا دودھ کے لئے ضد کر تاہے۔ یہ کیسا جہاں ہے جہاں ایک کسی چیز کے← مزید پڑھیے
یہ اتنا شور کیوں ہو رہا ہے؟ ایک اونچی دیوار بن رہی ہے، میں ا بھی ادھر ہی سے دیکھ کر آ رہی ہوں۔ دیوار، وہ کیوں؟ وہ تو راستہ روکنے کے لئے بنائی جاتی ہے نقل و حرکت کو← مزید پڑھیے
’یہ تم نے اپنے جسم پہ کیا لپیٹا ہؤا ہے؟‘ ’یہ ایک زنجیر ہے۔‘ ’زنجیر! کس نے تمہارے جسم پہ زنجیرڈال دی؟‘ ’کون ڈالے گا! میں نے خود ہی یہ کیا ہے! ‘ ’ہیں! یعنی تم نے خود ہی اپنے← مزید پڑھیے
عادل ریت پر لیٹا ہوا تھا، ایک دن کا پیاسا کئی دنوں سے بھوکا۔ اس کا جسم شاید بےجان ہو چکا تھا اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ کسی عضو کو ہلا سکے۔ ہر چند لمحات کے بعد وہ← مزید پڑھیے
خدا بخش گھبرایا گھبرایا سا تھا اتنے سارے لوگ، کچھ پڑھے لکھے، کچھ دولت کی انا میں اکڑے ہوئے، کچھ سرکاری عہدوں پر فائز آقا بنے ہوئے۔ اسے انجینئر کے کمرے تک پہنچنا تھا۔ وہ تو پانچ ایکڑ زمین کا← مزید پڑھیے
انتساب: 1948 میں فلسطینیوں کے جبری انخلا کی یاد میں منائے جانے والے دن النکبة ( 15 مئی) کے نام مجھے کتنا دکھ تھا اپنی زمین، اپنی جگہ چھوڑنے کا۔ وہ محض زمین نہیں تھی بلکہ میری جنّت تھی، جہاں← مزید پڑھیے