مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔
ایک تھے شیخ جی اور قسمت نے چھکا مارا اور وہ ہو گئے مالا مال ۔ دن ان کے ایسے پھرے کہ یکایک ریٹائر ہو گئے۔ یکایک اس طرح کہ شیخ جی پائلٹ تھے اور پٹرول مہنگا ہو گیا۔ شیخ← مزید پڑھیے
دیکھیں بات یہ ہے کہ ساری بات میں بات ہی یہی ہے کہ کوئی بات ہی نہیں۔ اگر کوئی بات ہوتی تو اب تک سامنے آ گئی ہوتی۔ جو بغل میں سے چھریاں نکال کر سامنے آ جائیں، وہ بات← مزید پڑھیے
دو لمحے ایسے ہیں جن میں حاصل سکون نہ کسی دامن میں اور نہ دامان میں مل سکتا ہے؛ ایک جب دل صاف پانی کے چشمے کی طرح بہتے ہوئے گواہی دیتا ہے کہ اور دوسرے جب ہونٹ ایک دوسرے← مزید پڑھیے
حادثے روز راہزنوں کی طرح سرراہ مسافروں کا انتظار کرتے ہیں ۔اپنی ذات کی تسکین انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ چھپ کر وار کرے اور زنجیروں کی کھنک سے عقوبت خانوں کو آباد رکھے۔ انسان محبت کرنے کےلیے← مزید پڑھیے
درختوں کے پیچھے سے در آتی ہوئی شفق کی سرخی جب رخ تر پر حیا بن کر اترتی ہے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ منظر وفا کی علامت ہے یا جفا کا عذاب۔ زور کی ہنسی بھی آنکھیں← مزید پڑھیے
چلیں اب اس بات پر لڑتے ہیں کہ کس کا نقصان زیادہ ہوا۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ وقت قیمتی نہیں رہا۔ لوگ چراغوں کو ڈھونڈتے رہے اور دھواں بال کھولے دریچوں سے نکل گیا۔ سخن، سرود اور← مزید پڑھیے
رات بھر شہر میں چراغاں رہا۔ پھر اچانک بادل امڈ آئے اور ایسا گرجے اور اتنا کڑکے کہ خدا کی پناہ ! ایسا لگ رہا تھا جیسے کہہ رہے ہوں عشق کو ثابت کرنے کےلئے کیا صرف جلتے بجھتے برقی← مزید پڑھیے
کُن۔۔مختار پارس/آنکھ کھلتے ہی جو بات دل میں در آئے وہ یا حقیقت ہوتی ہے یا خوف۔ خوف حقیقت پر مبنی ہوتا ہے کہ دل اس وقت تک نہیں دھڑکتا جب تک سچ سامنے نہ آ جائے۔ حقیقت سے اس وقت تک ڈر رہتا ہے جب تک اس سے واسطہ نہیں پڑتا ۔ انسان کو اس کے وجود کا اختیار ملتے ہی دل دھڑکنا شروع کر دیتا ہے← مزید پڑھیے
مردان ِ خدا نہ بد گمان ہوتے ہیں اور نہ ہونے دیتے ہیں ۔ کوئے محبت میں کوئی بھٹک بھی رہا ہو تو اسے بھٹکا ہوا نہیں کہتے۔ دل میں داخل ہونے والی باتوں کو ہم گمان کہتے ہیں اور← مزید پڑھیے
محبت کا منطق سے کیا تعلق؟ہر وہ شئے جو سمجھ میں ٓا سکتی ہے، محبت نہیں ہے۔ جہاں ٓاغاز جنوں کی صورت ہو اور انجام حشر، وہاں کسی کو کیونکرکچھ بھی سمجھ میں ٓا سکتا ہے۔ مقصد غمِ عشق کو← مزید پڑھیے
اگر نظر افلاک پر ہے تو مٹھی میں خاک بھر کر مستقبل کی طرف اچھال دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ خاک کو خاک نہیں پتہ کہ اس نے کہاں پر جا کر بکھرنا ہے۔ دست و پا کے قابو← مزید پڑھیے
مجھے وہ درخت بہت پسند تھا۔ اس کی چھاؤں ٹھنڈی تھی اور اس پر بہت سے پرندے بولتے تھے۔ ایک دن وہ درخت کاٹ دیا گیا۔ جب وہ درخت کاٹا جا رہا تھا تو میں نے منہ پھیر لیا ۔← مزید پڑھیے
قرب کا عذاب جینے نہیں دیتا اور ہجر کا کیف مرنے نہیں دیتا۔ بے ثبات ہونے میں ایک عجیب سی کیفیت ہے کہ وعدہء تحلیلِ حیات، امکانِ وفا کو زندہ رکھتا ہے۔ خدا کو محبوب کہتے ہوۓ ڈر لگتا ہے← مزید پڑھیے
مسافر کی آنکھ کھلی تو کسی مسجد میں اذانِ فجر ہو رہی تھی۔ وہ آواز کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے درِ مسجد پر پہنچا تو وہاں لکھا تھا کہ یہاں صرف ایک طرح کی ٹوپیاں پہننے والے ہی سر ٹیک سکتے ہیں۔← مزید پڑھیے
پریشان ہو تو باہر نکلو۔ اندر گھٹن ہو تو نماز بھی قضا ہو جاتی ہے۔ اندر کے اندھیرے محدود کر دیتے ہیں اور آہستہ روی سے یاس و قیاس کا ایسا جال بنتے ہیں کہ دل و جان خاکدان میں← مزید پڑھیے
لطف و کرم کی بساط سَجی ہے۔ کیسی ہار اور کیسی جیت ! میں خالی ہاتھ رخصت لے لوں یا گٹھڑی اٹھا کر سر پر رکھ لوں، جانا اسی کے پاس ہے۔ ہار گیا تو بھی اسکا اور جیت گیا← مزید پڑھیے
محبت خدا سے کی جاتی ہے یا انسان سے؟ ۔۔۔یہ دونوں ہاتھ میرےاپنے ہیں،دایاں بھی اور بایاں بھی۔ دائیں ہاتھ کو راست کہہ کر بائیں کو جھٹکا تو نہیں جا سکتا۔ ایک چہرہ ہے جو سب کو نظر آتا ہے← مزید پڑھیے
دل مضطرب کہ کوئی تعاقب میں ہے۔ حالانکہ کسی تعاقب سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بے وجہ کسی کو تلاش نہیں کرتا۔ ضروری نہیں کہ قدموں کے نشان ڈھونڈنے والے دشمن ہی ہوں۔ انسان جب اپنی تلاش میں← مزید پڑھیے
انسان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ ہر شخص خدا بن کر سوچتا ہے اور کہتا ہےکہ اس کے ارادے اس کے سوچنے سے پہلے رونما ہو جائیں۔ بندگی کے تقاضے پورے کر کے انسان اگلی منزلوں کو← مزید پڑھیے
سایہ وہیں ہوتا ہے جہاں کوئی کہیں ہوتا ہے ۔ عکس گمراہ کر سکتے ہیں مگر جھوٹ نہیں کہتے۔ سچ اور جھوٹ کا پرتو ایک جیسا دکھائی دیتا ہے۔ یہ دیکھنے والی آنکھ پر منحصر ہے کہ سائے کے ماخذ← مزید پڑھیے