Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power.
He is a practicing medical doctor.
(محترمہ راحیلہ خان ادیبہ کا افسانہ ‘حادثہ’ پڑھا۔ ‘منگیتر اور خاوند’ ایک ہی شخص کے دو روپ دیکھے۔ پڑھ کردل چاہتا ہے کہ بندہ ساری عمر منگیترہی رہے۔ شادی والا حادثہ کبھی وقوع پذیر نہ ہو۔ ایک افسانہ پیش خدمت← مزید پڑھیے
اس نے جواب دینے کی بجائے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔ کاجل نے بات جاری رکھی ”تمہارے میری بہن سے تعلقات کب بنے؟“ ”اس کا جواب دینا ضروری ہے؟“ وہ استفساریہ لہجے میں بولا۔ اسے افسردہ دیکھ کر پھر← مزید پڑھیے
تنہائی کا خالی سینہ اور باشک ناگ کا دل(1)۔۔سیّد محمد زاہد/کاجل نے کیفے سے باہردیکھا۔ برف پوش وادی چاندنی میں دُھلی ہوئی تھی۔ بل کھاتی لمبی سڑک اورحد ِنظر تک پھیلے سبزہ زار سفید اوڑھنی اوڑھے درد انگیز خاموشی میں ڈوبے ہوئے تھے۔← مزید پڑھیے
اس نے بابل، عکادی اور اشوری تہذیبوں کی جنم بھومی منطقۃ بین النہرین میں عرصہ درازتک بادیہ پیمائی کی۔ بیابانوں کی خاک چھانتے، دشت پیمائی کرتے, بلادالشراۃ اور سینائی سے ہوتے ہوئے وادی نیل پہنچی۔ یمن سے لے کر یونان← مزید پڑھیے
بھیڑ اور تنہائی۔۔ دونوں کا ملاپ بس سٹاپ پر ہوتا ہے۔ اس سٹاپ پر آج میرا آخری دن تھا۔ خدا نہ کرے مجھے دوبارہ ادھر آنا پڑے۔ لاہور کی آلودہ فضا، گاڑیوں کا گندا دھواں، شوراور ٹھنڈ، سارا دن سورج← مزید پڑھیے
خونی لہریں،محبت اور طالبان۔۔سیّد محمد زاہد/رات کی دیوی زلفیں کھولے بے حس پتھروں اور تاحدِنظر بکھرے سنگریزوں کو گود میں سمیٹے سو رہی تھی۔ دور کی پہاڑی چوٹیاں دھندلی دھندلی دکھائی دیتی تھیں۔ دیوی پُرسکون تھی۔ دیوی کا سکون مطلق ہر چیز سے چھو کر پوری کائنات پر سکتہ طاری کیے ہوئے تھا۔← مزید پڑھیے
بلوچستان:واپسی کاسفرشروع۔۔سیّد محمد زاہد/ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ملک پر حکمرانی کا یہ تجربہ بھی بُری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے نامزد کردہ یا پھر طوعاً و کرہاً منظور کردہ، کسی بھی وزیراعظم سے ان کی بن نہیں پائی تھی۔ الزام ہمیشہ سویلین پر آتا رہا کہ اس ناکام محبت کی وجہ ان کی نااہلی ہے۔← مزید پڑھیے
شیطان/دادی اور پوتی، دونوں نے عمرو کا استقبال بھرپور طریقے سے کیا۔ ہدایت کے عین مطابق وہ سیدھا ادھر ہی آیا تھا۔ بڑھیا اپنے رشتہ داروں سے چھپانا چاہتی تھی کہ اس نے کسی بہادر جوان کو مدد کے لیے← مزید پڑھیے
سکھیا اس کی دیوانی تھی۔ وہ ہیر گاتا تو کسی پجارن کی طرح اس کے بولوں میں کھو جاتی۔ قالوا بلی دے دینہہ نکاح بدھا روح نبی دی آپ پڑھایا ای قُطب ہو وکیل وِچ آ بیٹھا حکم رب نے← مزید پڑھیے
وہ جھوٹی تھی۔ سدا کی جھوٹی۔ محبت کے سب دعوے جھوٹے تھے۔ میں زوردیتا تو کہنے لگتی“میں تم سے شدید محبت کرتی ہوں اور تم مجھ سے۔ یہ محبت ہی شک میں مبتلا کرتی ہے۔میں نظریں نیچی کیے سنتا رہتا۔← مزید پڑھیے
گرچہ اس کی موت کی خبر بہت بعد میں ملی لیکن میرے لئے تو وہ اس سے بھی پہلے مر چکا تھا۔ وہ جو کبھی میرے خیالوں سے اوجھل نہ ہوا، اس کی موت کی خبر سن کر بھی میرا← مزید پڑھیے
ریگستان صحرا کے شمال مغربی کنارے پر واقع بی بی جان کلا کی چھوٹی سی منڈی میں صبح سویرے سنگلاخ ٹیلوں پر مال سجا دیا جاتا۔ دور دراز سے آنے والے خریداروں کا ہجوم سارا دن موجود رہتا پھر بھی← مزید پڑھیے
Nobel laureate John Glasworthy`s SALTA PRO NOBIS written in 1923 during the interwar period is that much related to the recent Afghan conflict and its effects on society. ”مشری مورہ! وہ بہت غمگین ہے۔ اپنے ہاتھوں کے کاسہ میں منہ← مزید پڑھیے
”میرا خیال تھا کہ آج وہ مجھے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ہائے ہائے! مجھے تو بتایا گیا تھا کہ وہ بڑا پرہیز گار ومتقی عالم ہے۔ صرف پڑھنا پڑھانا ہی اس کا واحد شوق ہے۔ استادالاساتذہ ہے۔ اُف اللہ!← مزید پڑھیے
سنگ تراشی اس کا خاندانی پیشہ تھا۔ وہ اس فن کو عبادت سمجھتے تھے۔ اس کا والد کہتا تھا ہرٹیڑھے میڑھے پتھرمیں ایک مورتی چھپی ہوتی ہے جسے فنکار ایک نیا جنم دیتا ہے۔ نسل در نسل وہ گندھارا← مزید پڑھیے