سٹیم روم میں بھاپ پھیلی تھی۔ چھوٹا سا کمرہ جس میں داخل ہوں تو زمین پر چوکوار جالی دار چوکٹھا تھا جس میں سے بھاپ نکلتی رہتی تھی۔ ہمیشہ خیال کرنا پڑتا تھا کہ ٹانگ اس بھاپ اگلتی جالی سے← مزید پڑھیے
“ہیلو۔” “ہیلو، سلام یار۔” وینا نے دیوار پہ سجی گھڑی کی طرف دیکھ کر کہا، “دو تین بار فون کر چکی ہوں۔ بارہ بجے تک تو تم اٹھ جاتی ہو۔ سب خیریت ہے نا آج—” “تم میرا کیوں اتنا فکر← مزید پڑھیے
وہ کئی دن سے اس سنگ مرمر کو دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ یہ چٹان اس کے حسین تصورات کا روپ دھارے گی۔ سرمئی دھنک اور سپیدی سے ابھرتی باریک سیاہ لکیروں میں خلط ملط شبیہ ظہور پذیر← مزید پڑھیے
توت کی لچکدار شاخیں موڑ کر مہارت سے چھجا سا بنایا ہوا تھا۔مدھو مالتی کی بیل کے نیچے ادھ چھپا برآمدہ سیمنٹ کا فرش،دیواروں کے ساتھ اکھڑا چونا پڑا تھا۔گھر کا داخلی دروازہ برآمدے میں کھلتا تھا۔ روشندانوں اور کھلی← مزید پڑھیے
پیاز ٹماٹر بھی ختم ہو رہے ہیں۔۔۔ لیتی جاؤں۔۔۔ آصف نے بھی آج جلدی آجانا ہے۔۔۔ آج آصف کی پسند کا کھانا بن جاۓ تو۔۔۔۔ پر آصف کو تو۔۔۔۔۔! کیسے دے رہے ہو پیاز۔۔۔؟ باجی سستے ہیں اب تو ریٹ← مزید پڑھیے
مقبوضہ علاقوں کے باسیوں کی زندگی موت و حیات کے گہوارے میں جزر و مد کی طرح جھولتی رہتی ہے۔ جہلم ندی کی موجیں انہیں جھولے جھلا رہی تھیں۔ لائف جیکٹس سے کبھی ہوا نکال کر گہرے پانی میں غوطہ← مزید پڑھیے
اب جیسی لکھی ہو ویسی آنے سے روک کون سکتا ہے، ہاں مگر ذی شعور ہوں تو ایک خوف سا جگہ بنا لیتا ہے تقسیم ہند پڑھتے تھے، اپنے پُرکھوں کی ہجرت ان کی آنکھوں میں دیکھ رکھی تھی اور← مزید پڑھیے
ہاں ہاں پتہ ہے پتہ ہے کہ میری عمر بہت ہو گئی ہے ۔قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھی ہوں ۔بہت سی بہاریں اور بہاروں کے نام پر عجیب و غریب زمانے دیکھ چکی ہوں ۔یہ بھی معلوم ہے کہ عنقریب← مزید پڑھیے
’’گڈ مارننگ! اس نئی کلاس میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میرے پڑھانے کا طریقہ روایتی ہے اور نہ ہی آپ سکول کے بچے کہ آپ کو قلم پکڑنا سکھایا جائے یا رٹے لگوائے جائیں۔ یونیورسٹی کی تعلیم سکول← مزید پڑھیے
شام کا وقت تھا میں اورٹینا ساحل پر ٹہل رہے تھے۔ ہم اکثر ہفتے کے دن وقت گزارنے یہاں آتے تھے۔ ہفتے کی مشقت بھری ملازمت سے نجات ملنے کے بعد یہاں ٹہلنا کسی خواب سے کم نہ ہوتا تھا۔← مزید پڑھیے
وہ کافی دیر تک خاموشی کے ساتھ کپڑوں سے بے نیاز میرے پہلو میں لیٹی ہوئی تھی۔ میں کتاب پڑھتے ہوئے کبھی کبھار کن انکھیوں سے اسے دیکھ لیتا اور بے اختیار میرا ہاتھ اس کے جسم پر رینگ جاتا۔← مزید پڑھیے
میں اور میری بیوی ہمارے اکلوتے بیٹے سے اتنی ہی محبت کرتے تھے جتنی کسی بھی متوسط طبقے کے والدین میں پائی جاتی ہے، میں ہمیشہ کوشش کرتا کہ وہ جس چیز کی خواہش رکھے میں اسے کسی نا کسی← مزید پڑھیے
دھوئیں اور گرد و غبار کے بادل روازنہ ابھرتے آفتاب کی نقاب پوشی کرتے۔ دن بھر فضائے آسمانی پر یہی چھائے رہتے۔ شام کو دبیز دھویں کی سحابی فوج تحت الثریٰ کی طرف جاتے سورج کی روشنی ڈھلنے سے بہت← مزید پڑھیے
نوٹ برائے وضاحت: یہ ایک افسانوی تحریر ہے۔ اس میں بیان کردہ تمام کردار، واقعات، مقامات اور ادارے مکمل طور پر فرضی ہیں۔ اگر کسی حقیقی واقعے یا شخصیت سے مشابہت محسوس ہو تو اسے محض اتفاق سمجھا جائے۔ یہ← مزید پڑھیے
دستک پر دروازہ کھولا تو سامنےدرمیانی عمر کا باریش شخص کھڑا تھا۔ قد درمیانہ تھا اور داڑھی خصاب سے سیاہ کی گئی تھی مگر رنگ چھپانے کی کوشش کے باوجود داڑھی کے بالوں کے سروں سے سفیدی اپنا رنگ ظاہر← مزید پڑھیے
افسانہ: *دروازے کے سوراخ سے چٹان تک* آخری حصہ مصنف: کامریڈ فاروق بلوچ ۷ رات کی سیاہی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ سرد ہوا دروازوں سے ٹکرا رہی تھی اور دور کہیں شہر کی گلیوں میں تنہائی سرگوشیاں کر رہی← مزید پڑھیے
یہ شہر عجیب تھا۔ یہاں ہر دروازہ ایک داستان تھا، اور ہر داستان ادھوری۔ یہاں کے باسی عجیب تھے—نہ مکمل رخصت ہوتے، نہ مکمل قیام کرتے۔ وہ لوگ جو ایک دوسرے کے قریب آتے، کچھ وقت ساتھ گزارتے، پھر اچانک← مزید پڑھیے
سو سوری یوسف میری آنکھیں ہی نہیں کھلیں! نمرہ نے جلدی جلدی اپنے بکھرے بالوں کو سمیٹ کر جوڑا بناتے ہوئے چولھے کا برنر آن کیا۔ رہنے دو نمرہ تم پریشان مت ہو میں نے انڈا ابال کر کھا لیا← مزید پڑھیے
وہ ہمیشہ آخری صف میں بیٹھتا تھا۔ نہ اتنا نمایاں کہ استاد کی نگاہیں اس پر ٹک جاتیں، نہ اتنا غیر اہم کہ مکمل فراموش کر دیا جاتا۔ وہ ایک درمیانی سا وجود تھا— بین السطور پڑھی جانے والی تحریر،← مزید پڑھیے
وہ ٹیوشن سے نکلا، کتابیں بغل میں دبائے سڑک پر آیا اور اپنے گھر کی جانب رواں ہوا ۔ ابھی اس نے تھوڑی ہی مسافت طے کی تھی کہ تین چار چرسی آپس میں جھگڑا کرتے ہوئے سامنے آن کھڑے← مزید پڑھیے