میرے انتظار کا عذاب اس لا پتہ شہید کی بیوہ سا ہے جو روز متروک ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر گھنٹوں بیٹھی اس گاڑی کی راہ تکے جس میں جھنڈے میں لپٹا جسد خاکی آنا ہو سفید چادر سونی کلائیاں← مزید پڑھیے
ہر نئی غزل ہے میرے گناہوں میں اضافہ پاپی اباحی کو رہین منت گناہ ہی رکھنا بار محبت سے ہے میری فروتنی قائم بندہ عاجز کو رہین منت چاہ ہی رکھنا نگاہ ناز سے ہو جاتے ہیں طبق روشن لپکتے← مزید پڑھیے
ساعت وصل میں بس، یہی نیکو کاری ہے کار محبت اور بڑھاؤ، بہت بے قراری ہے اک لمحہ ہجر کبھی، نصیب ہی نہیں ہوا بدن سے مکالمہ میں، زندگی گذاری ہے کمر کی یہ وادیاں، سریں کی وہ گھاٹیاں سینے← مزید پڑھیے
ایک دن فیس بک پر محمد نصیر “زندہ” کی رباعی پڑھی تو دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اگرچہ عصرِ حاضر کے شعرا اور ادیب دن رات اپنی تخلیقات یا دوسروں کے کلام سے صفحات بھرتے ہیں، مگر اس دورِ← مزید پڑھیے
انسانوں کو انسانوں کے زہر سے آلودہ ہونے پر جسم نیلے نہیں ہوتے میلے نہیں ہوتے موت نہیں ہوتی ایک دن میں کچھ نہیں ہوتا یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کس نے کاٹا ہے کب دانت گاڑے ہیں اور کیوں← مزید پڑھیے
انسانوں کو انسانوں کے زہر سے آلودہ ہونے پر جسم نیلے نہیں ہوتے میلے نہیں ہوتے موت نہیں ہوتی ایک دن میں کچھ نہیں ہوتا یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کس نے کاٹا ہے کب دانت گاڑے ہیں اور کیوں← مزید پڑھیے
مدتوں بعد ایک سرگوشی سنی میرے گھر کی چوکھٹ میرے کان میں بولی تیرا “گل دستار ” آیا تھا میں ہذیانی لہجے میں دھاڑی میرا کلیجہ چبانے کے لیے کیا تم رہتی تھیں؟ چوکھٹ مسکا کے گویا ہوئی اے باولی← مزید پڑھیے
نہ جانے کس کس کرب سے گزری ہے یہ انسانیت روز آفرینش سے اب تک کئی بار مرنے اور زندہ ہونے اور پھر زندہ رہنے کی اذیتوں کے بعد شنید ہے اب زندگانی جنگ کی گولیاں پھانک کر سب انسانوں← مزید پڑھیے
جاڑے کی رات شدید سناٹا کُہْرا اداسی اور ہُو کا عالَم میں چوبارے میں اِیستادَہ ہمیشہ کی طرح اَفْروخْتَہ خود سے محو کلام تھی ۔ دل شِکَسْتَگی کے عالم میں یکایک کسی کا بین اور سسکیاں دل چیر گئیں سامنے← مزید پڑھیے
جب بمباری سے آسمان پھٹ گیا جب زمین نے زندہ انسانوں کو نگل لیا جب پناہ گاہوں کے مکیں آگ کی نذر ہو گئے جب شہروں کو ملبہ بنا دیا گیا جب بستیوں کو نیست و نابود کر دیا گیا← مزید پڑھیے
نظم عنوان حواذادیاں میں شدت سے چاہتی ہوں کہ ہمارے حلق میں پھنسی گونگی چیخیں سن کر اسرافیل گریہ و بین کرے اور مجھ سے کہے کیا اس کرب کے بعد بھی قیامت محتاج ہے میرے صور کی ؟ میں← مزید پڑھیے
فلک کے دامن میں اک بزم سجی ہے نور کے ہالے میں لپٹی، یہ محفل ستاروں کی ہے وہ ستارے جو کبھی عشق کے سمندر میں خود کو ڈوبو کر بجھا دینا چاہتے تھے لیکن وہ اب بھی اسی شان← مزید پڑھیے
۱۱ مئی ۲۰۲۴ کو کینیڈا کے دارالحکومت “آٹوا” میں ارباب قلم کینیڈا کے روح ِ رواں فیصل عظیم اور ان کے ساتھیوں نے کینیڈا پاکستان ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر سید عبد العزیز کے تعاون سے ایک بہت خوبصورت مکالماتی ادبی← مزید پڑھیے
یا رب آیا ہے یہ ناچیز تیرے حضور، لے کر فقط اک التجا درد سے آنکھیں میری اشکبار، دل ہے یاس میں ڈوبا ہوا بلک بلک کے تڑپ رہا ہوں میں، رقص بسمل سے دے رہا ہوں صدا الزام ہے← مزید پڑھیے
وہ ایک مکان خستہ حال مکان غیر قانونی آباد کاروں سے گھرا ہوا مکان کئی مرتبہ ان آباد کاروں نے مکان کو نقصان پہنچایا اس مکان کے مکینوں کو بھی ڈرایا دھمکایا ستایا تاکہ یہ فلسطینی خاندان یہاں سے بھاگ← مزید پڑھیے
’’لہجہ‘‘ معروف شاعر جناب قیصر وجدی کا شعری مجموعہ ہے۔ اس کی طباعت نہایت خوبصورت اور صاف ستھری ہے اور یہ چکنے اور موٹے کاغذ پر دیدہ زیب سرورق کے ساتھ سلیقے سے چھپی کتاب ہے۔ قیصر وجدی کو دوست،← مزید پڑھیے
اس سر زمین پر ایک پچیس کروڑ کا ہجوم آباد ہے۔ ہجوم کو خدائی کا پتا ہے نہ ہی اپنا خدا یاد ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد ہجوم کسی بے بس کو گھیر لیتا ہے۔ اسے سہماتا ہے ڈراتا ہے← مزید پڑھیے
سیاہی، روشنائی، دوات آج یہ لکھنے کے لئے میرے قلم کی مدد نہیں کر سکتے اور اسے ان کی ضرورت بھی نہیں ہے مجھے کوئی سمجھائے کہ معصوم بچوں کی چیخوں کو کیسے قلمبند کروں ملبے میں دبی ہوئی آہ← مزید پڑھیے
میں آ گیا ہوں میری آواز سنو مجھ پہ اعتبار کرو میرا کہا مانو کچھ اور صبر کرو میں نجات دہندہ ہوں میں فصلِ گلِ لالہ ہوں میں تمہاری دعاؤں کا نتیجہ ہوں میں لاکھوں میں ایک ہوں ہزاروں سال← مزید پڑھیے
خلق اللہ کو نجی ملکیت کون لکھتا ہے دل و جاں کو بے حیثیت کون لکھتا ہے آسماں دشمن نہیں ہے ہمارا، لیکن ایسی ظالم مشیت کون لکھتا ہے آئین خداوندی تو بہت سادہ ہے یہ الجھی ہوئی شریعت کون← مزید پڑھیے