چشمِ ظاہر زمان و مکاں کی قید میں ہے ، چشمِ تصور نہیں۔ چشمِ ظاہر کو موند لیجیے، چشمِ تصور کو وا کیجیے۔ وہاں چلیے جہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ صرف قادرِ مطلق تھا ۔ قادرِ مطلق کے لفظ پر← مزید پڑھیے
اس تصویر کو غور سے دیکھیے ۔۔کیا دِکھا ؟ غور کیجیے ۔۔میری تو نیند آنکھوں سے جاتی رہی۔ آنکھیں بند کرتا ہوں تو ہنستے ہوئے اس آدمی کی تصویر دھاڑیں مارنے لگتی ہے۔ آنکھیں کھولتا ہوں اس تصویر سے ٹپکتے← مزید پڑھیے
پانچواں مشیر (ابلیس کو مخاطب کرکے) اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم استوار تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار آب و گل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز ابلہِ جنت تری تعلیم سے دانائے کار← مزید پڑھیے
نظم کا تعارف: یہ شہرہ آفاق نظم اقبال کی آخری کتاب ”ارمغان حجاز ” کے حصہ اردو کی پہلی نظم ہے۔ بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب، یہ نظم علامہ مرحوم کے تیس سالہ پیغام کا لبِ لباب ہے، کہ← مزید پڑھیے