یہ میری صحافتی زندگی کا ایک انوکھا تجربہ تھا۔ میں نے بطور ایک صحافی افغانستان سے لے کر عراق، شام، لبنان اور فلسطین میں ہونے والی جنگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، بوسنیا اور سری لنکا کے تامل علاقے← مزید پڑھیے
اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ کے قریب ایک بڑی خوبصورت جگہ ہے جو شکر پڑیاں کہلاتی ہے۔ شکر پڑیاں پر بنائے گئے پاکستان مونومنٹ کو دیکھ کر بڑے سے بڑا زیرو پاکستانی اپنے آپ کو ہیرو سمجھنے لگتا ہے۔ 15؍اکتوبر← مزید پڑھیے
کوئی مانے یا نہ مانے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تقریر کو صرف مظلومینِ کشمیر نے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ستم زدہ مسلمانوں نے خوب سراہا ہے۔ عمران خان سے کچھ دیر← مزید پڑھیے
ناکامی یا غلطی کو تسلیم کرنے والے لوگ بہادر کہلاتے ہیں۔ ناکامی پر بہانے تراشنے اور ناکامی کو چھپانے کیلئے جھوٹ بولنے والے لوگ صرف بزدل نہیں بلکہ ناقابل اعتبار بھی ہوتے ہیں۔ پاکستانی قوم سے بھی ایک بہت بڑی← مزید پڑھیے
برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ کے سٹی کونسل ہال میں منعقدہ کشمیر سیمینار میں اظہارِ خیال کے بعد باہر آیا تو ایک پرانے دوست کو سامنے کھڑا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس دوست کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے← مزید پڑھیے
دریائے پونچھ کے کنارے واقع اس خوبصورت گائوں کا نام مدارپور تھا۔ ہجیرہ سے تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کی طرف جاتے ہوئے لائن آف کنٹرول کے قریب اس گائوں کے مکین کئی دنوں سے اپنے گھروں میں محصور ہیں کیونکہ← مزید پڑھیے
میرے صحافتی کیریئر کا آغاز 1990ء میں ماہنامہ “صدائے مجاہد” سے ہوا تھا جس کے چار سال بعد میں نے ادارت بھی سنبھالی. کیریئر کی پہلی تحریر “خلیجی بحران کا پس منظر” کے عنوان سے لکھی جو خارجہ و عسکری← مزید پڑھیے
منبرومحراب کے وارث تو عرصہ ہوا سچائی اور تحقیق کو دفن کرچکے اس لئے ان کی طرف سے کوئی ہوش ربا الزام لگے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن ٹی وی پہ پروگرام کرنے والا اور اخبار میں کالم← مزید پڑھیے