سمیرا کہنے لگی “مردوں کے پاس ایک کہانی کو چھپانے کیلئے کتنی کہانیاں ہوتی ہیں ۔اور ہم عورتوں کے پاس ہزار درد چھپانے کا بس ایک ٹوٹکا ۔ ” اینویں ۔۔امی یادآگئی تھیں ” میں سمیرا کی بات سُن کر← مزید پڑھیے
“عدیل نے میرا نمبر کہاں سے لیا ہوگا”؟ میں پیکو والی دکان کا تھڑا چڑھتے ہوئے بھی یہی سوچ رہی تھی۔ دکاندار سے دوپٹہ پکڑ کر دیکھا، ٹُک وہیں کا وہیں تھا۔ لگتا ہے میری طرح سب کی مت مری← مزید پڑھیے
جب گاؤں کے ہر گھر میں دو دو ڈنگر ہوں تو پھر رات کو چاہے کَٹا بھونکے یا کتا اڑِنگے ۔تھکے ہاروں کی آنکھ نہیں کھلتی ۔زری کی نانی کے ہاں تو دو مجھیں اور ایک وچھی تھی ۔ بھینسیں← مزید پڑھیے
کتنی عجیب بات ہے ۔ جس رات مجھے نیند نہ آئے ,اس رات میں سمجھ بھی نہیں پاتی کہ” جاگ کیوں رہی ہوں ۔”؟ بستر سے اٹھ کر صحن میں آجاتی ہوں ۔موبائل چارجر پہ چھوڑ دیتی ہوں ۔ ارشد← مزید پڑھیے
اس گھر میں روزے صرف مجھ پہ اترتے ہیں ۔فاطمہ کا کالج نہ ہو تو وہ رکھ لیتی ہے ۔ریحان بھی چھٹی روزہ رکھ کر مناتا ہے ۔ لیکن مرزا صاحب کی ذمہ داری زیادہ ہے ۔دو پیکٹ سگریٹ کون← مزید پڑھیے
جو ہم سوچتے ہیں،یا لکھتے ہیں، وہ انہی خیالوں کی کاپی پیسٹنگ ہے جو اس سے پہلے سوچے جاچکے ہیں ۔ المیے اور خوشیاں ہر خطے کے سماجی رحجان کی وجہ سے مختلف تو ہو سکتے ہیں،مگر لکھنے والوں کے← مزید پڑھیے
برتنوں کی کھنک میں بھی ذائقہ ہوتا ہے ۔ ۔دوسال چھابی میں روٹی کےاوپر آلو گوبھی، آلو گاجریں رکھ کر کھاتے کھاتے صغریٰ جیسے بھول ہی گئی تھی قورمہ، ہو تو ڈنر سیٹ نکلتا ہے ۔ اس نے شوربےمیں پڑی← مزید پڑھیے
ڈاکخانے والوں نے نیا طریقہ ڈھونڈھ لیا ہے،جس پارسل پہ فون نمبر لکھا ہو اسے کال کرکے کہتے ہیں کہ ” آپ کا گھر نہیں مل رہا ،پوسٹ آفس آکر کتاب لے جائیں۔” جس وقت کال آئی سارے بچے کالج← مزید پڑھیے
میں سنی سنائی پہ یقین نہیں کرتی لہذا شادی کے بعد جب میری نندوں نے کہا ” وکی کا دھیان رکھنا بہت فلرٹی ہے۔ ” تو میں نے سوچا، بہنیں ہوتی ہی پاگل ہیں اپنا بھائی اینو یں سابھی ہو← مزید پڑھیے
کہیں سنا پڑھا تھا ” مرد سرہانے کا سانپ ہوتا ہے “میری قسمت میرے پاس ایناکونڈا ہے ۔زندگی بھر مجھ سے کیا کچھ نہیں چھپایا، لیکن میری ایک بات نہیں چھپا سکا ۔ ایک قلفی، ایک چکوترہ کھلا کے دوسو← مزید پڑھیے
جب تک میں نے خود لکھنا شروع نہیں کیا،تب تک مجھے پتہ نہیں تھا کہ بہترین تحریر بہترین مشاہدے کا نچوڑ ہوتی ہے ۔پھر جیسے جیسے لوگوں کی مجھ سے توقعات بڑھتی گئیں، مجھے ہر جملے ہر لائن پہ توجہ← مزید پڑھیے
کچھ کتابیں ایک جلد اور چند صفحات تک محدود نہیں ہوتیں ۔ان کے اندر کسی زمانے کی کہانی ہوتی ہے اور اس ایک کہانی کے ساتھ ماضی حال اور مستقبل سے وابستہ ہزار داستانیں ہوتی ہیں ۔ یہ الف لیلہ← مزید پڑھیے
اب بھی ایسا ہوتاہے۔۔ کسی کونے میں بیٹھ کر ۔۔۔موبائل پہ، اسے دیکھنے ہی لگتی ہوں تو آواز آتی ہے “ماما، میری نیلی پینٹ کہاں ہے “؟ ایک پینٹ ڈھونڈنے نکلوں تو ایک سے جڑا ایک کام پکڑتے پکڑتے رات← مزید پڑھیے
میرے ساتھ ہمیشہ عجیب ہوتا ہے ۔ کچھ بتانا ہوتا ہے،مگر کچھ پوچھ بیٹھتی ہوں ،اور مرزا ہے کہ اپنی قسم کا واحد۔ ۔سیدھے سبھاؤ کو الجھانے کا ماہر ۔کنول، پھول اور تتلیوں کے پنکھ پڑھتے ہوئے یونہی پوچھ بیٹھی← مزید پڑھیے
ایک دفعہ کا ذکر ہے، پرستان پر ایک نیک دل بادشاہ کی حکومت تھی۔اس بادشاہ کی چھ بیٹیاں تھیں، اگرچہ اللہ نے اسے بیٹے سے نہیں نوازا تھا، مگر اسے اپنی بیٹیوں سے بے انتہا محبت تھی،اسے اکثر اپنی بیٹیوں← مزید پڑھیے
آبادی سے پرے وسیع میدان میں مٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹیلےتھے۔جن میں لاکھوں کی تعداد میں چیونٹیوں نےاپنےبل بنائےتھے۔ان میں ہزاروں چیونٹیوں کی نسلیں آباد تھیں، انکا تعلق ایک کروڑ سینتیس لاکھ سال قبل موجود بھڑ اجداد سے تھا۔ان کی← مزید پڑھیے
ہاتھوں کی کٹوری بہتے پانی کے نیچے رکھی تو قسمت والی زندگی کی سبھی لکیریں مٹیالی لگنے لگیں ۔ ایسے لگا جیسے پانی چہرہ چھوئے بناپلٹ گیا ہو ۔ بس آنکھیں ہی تو بھیگی ہیں ۔۔ ہسپتال سے چارسال بعد← مزید پڑھیے
“آنٹی جی، ماما کہہ رہی ہیں تھوڑا سالن دے دیں”۔ باورچی خانے میں رات کے کھانے کی باقیات سمیٹتے کئی بار کی سنی آواز پھر سنائی دی۔میں نے گھوم کر دیکھا تو ساتھ والی حاجن کا بارہ سال کا حسن← مزید پڑھیے
ایک صاف ستھرے محلے کی ،کھلی اور ہوا دار گلیوں کے دونوں اطراف مکانات تھے جن کے صحن کو مٹی گارے سے لیپا گیا تھا اور ان میں لکڑی کے ڈربے بھی بنائے گئے تھے۔جن میں زیادہ تر مرغیاں،خرگوش وغیرہ← مزید پڑھیے
پورب کی سمت ایک ہرابھرا جنگل تھا۔یہ جنگل اتنا گہرا تھا کہ مشکل سے سورج کی کرنیں زمین تک پہنچتیں ۔ اسی دھوپ چھاؤں جنگل کے ایک کونے میں سرمئی بابا کی جھونپڑی تھی۔ لمبے بانس کے تنوں اور پتوں← مزید پڑھیے