یونیورسٹی کی کینٹین میں اکثر اُن کی بحث ہوتی۔ وہ ہمیشہ نوک جھونک کرتا اور وہ مسکرا دیتی۔ آج پھر وہ وہ شرارت کے موڈ میں تھا۔ کیا یار ! یہ تم لڑکیاں بھی نا، عجیب وضع کا لباس← مزید پڑھیے
انقلاب کامیاب ہوا۔ غریبوں اور محروموں نے استحصالی طبقے کو اٹھا کر گلیوں، سڑکوں اور چوراہوں پر پھینک دیا۔ ظلم و استبداد کا نظام یوں تو صدیوں سے قائم تھا لیکن انقلاب کی اصل وجہ رواں برس کے وہ پے← مزید پڑھیے
وہ فون کان سے لگائے کسی پر پھنکاررہا تھا۔ میں تجھے تباہ کر دوں گا۔ تو جہاں بھی جائے گا میری پہنچ سے نہیں نکل سکتا ۔ تجھے پتہ نہیں ، میری رسائی کہاں تک ہے ، میرے ہاتھ کتنے لمبے ہیں؟← مزید پڑھیے
مولوی صاحب؟ ہاں بول؟ باہر ڈاکٹر صاحب، وکیل صاحب، کونسلر صاحب، پٹواری صاحب چودھری صاحب اور ملک صاحب آئے ہیں جی۔ ابے کیا کہتے ہیں؟ پتہ نہیں جی، آپس میں بڑی پریشانی میں باتیں کر رہے ہیں، کہہ رہے تھے← مزید پڑھیے
کیا گلی کی نکڑ پر بیٹھا رہتا ہے یار؟ کبھی مسجد چلنے کی توفیق تو ہوئی نہیں تجھے۔ ہاں یار کہتا تو تَو سچ ہے۔ دل تو چاہتا ہے لیکن، بس ۔۔۔۔ ابے چھوڑ یہ سب بہانے ہیں مجھے← مزید پڑھیے
اس لڑکی کو کس نے ہائر کیا؟ سر آپ چھٹی پر تھے، آپ کی دی ہوئی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے میں نے آفر لیٹر سائن کیا تھا۔ سر آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ آپ کی← مزید پڑھیے
آج ہماری شادی کو پچیس برس ہو گئے۔ تم کچھ نہیں کہو گی، ہماری بیتی زندگی کے بارے میں ۔۔۔۔۔کچھ تو بولو؟ ہوں ۔۔۔۔۔۔ہاں۔ کیا ہوا تمھیں؟ ایک منٹ ، میری آنکھ میں شاید کوئی تنکا چلا گیا ہے۔۔۔ Save← مزید پڑھیے